علم الکتاب خواجہ میر درد کے عرفانی تصورات کا وہ استعارہ ہے جو ان کی ذہنی پختگی اور بالغ نظری کی بین دلیل ہے۔ انہوں نے یہ کتاب اپنے بھائی میر اثر کی خواہش پر تحریر کی اور اس کو والد محترم خواجہ ناصر عندلیب کی بھی تایید و تقریظ حاصل ہے۔ درد اس کتاب کو "کلید قفل توحید و معرفت" قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق اس کتاب کے مختلف نام ہیں جیسے شرح للواردات یا ذکر للعالمین مگر ان کی صراحت ہے کہ اس کا اصل نام علم الکتاب ہی ہے جسے انہوں نے ۱۱۷۹ ہجری میں مرقوم کیا جس کے اعداد سے اس کا سنہ تالیف بھی مستخرج ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ۱۱۱ رباعیات کو "واردات" کے عنوان سے تشریح و توضیح کی ہے مگر اس کے ضمن میں وہ ہر وارد کے آخر میں ایک دوسری رباعی کا بھی اضافہ کرتے ہیں جو یا تو اس وارد کی موید ہوتی ہے یا اس کے ذیلی عنوان سے اس کا گہرا ربط ہوتا ہے اور اس ۱۱۱ کے عدد پر ختم کرنے کی حکمت کو بھی بیان کیا ہے، چونکہ ۱۱۰ عدد لفظ علی کے ہیں مگر چونکہ"ان اللہ وتر و یحب الوتر" اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے اس لیے انہوں نے ایک عدد کا اس میں اضافہ کیا ہے(علم الکتاب، ص۹۶)۔ ان کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ ہر وارد کی پیشانی پر لفظ "ھو الناصر" اور "بسم اللہ" کا اضافہ کرتے ہیں اور پھر عربی زبان میں ایک پر مغز خطبہ نقل کرتے ہیں جو اسی وارد سے متعلق ہوتا ہے۔ ساتھ ہی بسم اللہ پر ھو الناصر کو مقدم کرنے کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں تاکہ تقدیم ھو الناصر پر کسی معترض کو انگشت نمائی کی گنجایش باقی نہ رہ جائے وہ لکھتے ہیں کہ ھو الناصر بھی اللہ کے ایک ہزار ناموں میں سے ایک ہے اسی طرح ناصر جناب رسول اللہ ﷺ کے ۹۹ ناموں میں سے ایک ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس نام سے موسوم ہیں نیز فاطمہ زہرا کو بھی ناصرہ کہا جاتا ہے اور یہی نام درد کے والد محترم کا بھی ہے لیکن اس سب کے باوجود اس نام کی حقیقی نسبت خدا تعالی کی ہی جانب ہے اس لیے ھو الناصر کو بسم اللہ پر مقدم کرنے سے کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔(علم الکتاب،ص ۹۵) علم الکتاب کا موضوع متصوفانہ عناصر کا بیان ہے جسے میر درد علم الہی محمدی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے متصوفانہ تخیلات کو نقد و انتقاد کے ذریعے ان رسومات و مزخرفات مزعومہ کو جو بعد زمانہ کی وجہ سے عرفانیات کا حصہ قرار پا چکی تھیں، آیینہ کی طرح صاف کیا ہے اور غیر ثنویت کے شبہات کو چھان بین کر کے ان نقایص کی نشان دہی کی ہے۔ اس کتاب میں تصوف کی موشگافیاں اور صاف گوییاں ایک ساتھ مجتمع نظر آتی ہیں ۔ تصوف سے متعلق ان کی رائے کچھ اس طرح ہے کہ تصوف کچھ مخصوص اصطلاحات و محاورات کے جاننے کا نام ہے ٹھیک اسی طرح جسے ہم دیگر علوم کسبیہ کو حاصل کرتے ہیں۔ میر درد یہیں پر بس نہیں کرتے بلکہ اس سے دو قدم اور آگے جاتے ہیں جہاں پر علماء عامہ کے پر جلنے لگتے ہیں اور وہاں جاکر انہوں نے تصوف کے دو شہرہ آفاق نظریات وحدت الوجود و وحدت الشہود کو بھی علم الہی محمدی کے سامنے ہیچ شمار کیا ہے اور پہلے کو "تقریر بے ادبانہ و بیان مستانہ" کہا ہے اور دوسرے کو "کثرت شوق و غلبہ ذوق، بلا ادراک حقیقت" کہا ہے اور ان دونوں کو تصوف کی شاہراہ میں نقص گردانا ہے۔ وحدت الوجود سے متعلق ان کی وہی رایے ہے جو مجدد الف چانی کی ہے البتہ انہوں نے وحدت الشہود کو اگرچہ بالکل مسترد نہیں کیا ہے بلکہ گاہ بگاہ اس کی تایید بھی کرتے رہتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے صوفیہ کی عام جماعت سے ہٹ کر اپنے ایک الگ موقف کا انتخاب و اظہار کیا ہے۔ کیوں کہ درد کے عہد تک اگر ہم بنظر غایر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ صوفیہ موٹے طور پر دو الگ الگ عالمی و شہرہ آفاق نظریات کے دام میں پھنسے ہوے تھے اور انہیں دو نظریات کے مدار پر تصوف کا کارواں رواں دواں تھا۔ ان میں سب سے پہلا اور مضبوط گروہ وحد الوجود یعنی ہمہ اوست کے متبعین کا تھا جس کے سرخیل شیخ محی الدین ابن العربی اور ان کے متبعین و شارحین تھے جس کی خیرہ کن روشنی سے متصوفین متاخرین کا کاروبار تصوف ایک منظم و منضبط تفکیرات کے ذریعہ تمام عالم اسلام و دنیاء تصوف کو مسحور کر رکھا تھا اور تقریبا پانچ سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ طلسم ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور آج بھی صوفیہ کا بہت بڑا دھڑا اسی نظریات پر عمل پیرا ہے۔ اول اول صوفیہ نے اس کو بہت ہی منظم طور پر آگے بڑھایا مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا صوفیہ نے اپنے خیالات کو وحدت وجود کا جامہ پہنا کر پیش کرنا شروع کر دیا اور حد تو تب ہو گیی جب عہد اکبری تک آتے آتے متعدد غیر اسلامی تحریکات اور دیگر مذاہب نے خود کو اس رنگ میں رنگ کر اپنے عقاید کو بھی یہ جامہ پہنا دیا اور اس سے بھی چند قدم آگے بڑھ کر اکبری عہد کے متعدد گروہوں نے اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے لگے جس سے نہ صرف اسلام کو نقصان پہونچ رہا تھا بلکہ صوفیہ کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا تھا۔ اس کے علاوہ صوفیاے جہلا فلسفہ سے متاثر ہوکر اپنے بنایے ہوئے ڈایلاگس کو شطحیات کا نام دیکر تصوف کے خوان پر پروس رہے تھے۔ چنانچہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس کے فسوں کو توڑا جایے اور اس کی خامیوں ، خرابیوں اور کمزور کڑیوں کو توڑا جاے اور اسے پھر سے خالص کیا جایے۔ اس لیے اس کی کمزوریوں پر وار کیا گیا کہ وحدت الوجود کو ماننے والے واجب و ممکن کو ایک دوسرے کا عین شمار کرتے ہیں اور عبد و معبود کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور عینیت و غیریت کو آپس میں ضم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ شطحیات گویی میں ملوث ہوکر بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں باوجودیکہ کلمہ شہادت میں عبدیت و معبودیت کو رسالت پر مقدم رکھا گیا ہے۔ شیخ احمد سرہندی نے جب اپنی تجدیدی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو ان کو ابتدائی ایام میں ہی اس کے نقایص کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس کے مقابل ایک دوسرا نظریہ پیش کیا جو وحدت شہود کے نام سے جانا گیا اور ہمہ اوست کے بجاے ہمہ ازوست سے متعارف ہوا اور پھر ایک طویل بحث کا آغاز ہوا۔ اگرچہ مجدد الف ثانی نے وحدت وجود کو یکسر مسترد نہیں کیا تھا بلکہ وہ اس نظریہ کو راہ عرفان و تصوف کی ابتدایی منزل تصور کرتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ وحدت شہود یقینی طور پر وحدت وجود کے مرتبے سے اعلی و ارفع ہےجو وحدت وجود کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ خواجہ میر درد کے نزدیک یہ دونوں کے دونوں فلسفہ و نظریات مقصود اسلام نہیں بلکہ کشف و جذب کی حالت زار کا نتیجہ ہیں، حقیقت حال سے ان کا کویی واسطہ نہیں بلکہ جذبہ شوق و مستی اور کشف و مراقبہ کی حالت بے حالی کا نتیجہ ہیں جو فلسفہ و کلام کی مدد سے اسلامی تفکیرات کا حصہ بن گئی ہیں۔ اسی لیے میر درد نے خود کو اور طریقہ محمدیہ کے متبعین کو ان بے نتیجہ مباحث سے دور رکھا ہے اور ان دونوں ہی نظریات کو اسلامی تعلیمات کے منافی تصور کیا ہے اور کسی ایک نظریہ سے پابندی کے ساتھ منسلک ہونے کو عیب تصور کیا ہے۔ اس کے بالمقابل ان کا ماننا ہے کہ عقیدہ وہی درست جو قرآن و سنت کے موافق و مطابق ہو۔ چونکہ میر درد نقشبندیہ سلسلے سے کہیں نہ کہیں منسلک تھے اس لیے انہوں نے وحدت الشہود کی بعض اغراض و مقاصد کے تحت تایید بھی کی ہے مگر یہ توثیق کورانہ تقلید نہیں بلکہ ان کے موقف اور قرآن و سنت کی موید ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ اہل سلوک کو چاہیے کہ عوام کے درمیان ہمہ اوست کے بجاے ہمہ ازوست کے مطالب کو بیان کریں تاکہ اس سے ہر خاص و عام ، صغیر و کبیر استفادہ کر سکے، کیونکہ وحدت وجود کے مطالب سے اخص الخواص کے علاوہ کویی بھی صراط مستقیم پر قایم نہیں رہ سکتا اور میر درد نے وجودی و شہودی متبعین کے لیے چار درجے متعین کیے ہیں۔ اول وہ ہے جو توحید وجودی و شہودی کو تو موٹے طور پر جانتا ہو اور دل میں ما سواے ذات واحد کسی کو اپنا حامی و ناصر نہ سمجھتا ہو تو اسے اولیا کی فہرست میں شامل کیا جایے گا چونکہ وہ اس علم کے رموز و اسرار کو نہیں جانتا اس لیے اسے محققین کے زمرے میں نہیں رکھا جایگا۔ دوسرا وہ شخص ہے جو ان علوم کی آشنایی تو رکھتا ہو مگر دل میں ما سوای ذات واحد کسی اور کو بھی شریک کرتا ہو تو وہ محققین و مقلدین کے زمرے میں تو شمار کیا جایگا مگر ولی نہیں ہے۔ تیسرا وہ ہے جو شریعت سے سروکار ہی نہ رکھتا ہو اور بے سر و پا باتیں کرتا ہو تو وہ ملحد ہے اسے مقلد بھی نہیں کہا جاییگا۔ چوتھا وہ ہے جو اس علم کی مصطلحات کو بھی بخوبی جانتا ہو اور اپنے اندر محبت خدا تعالی بھی رکھتا ہو تو اس کو ولی کامل کہا جاییگا۔( علم الکتاب، ص۱۸۵) درد نے شطحیات عرفا کے حوالے سے بھی اپنا اسٹیٹمنٹ دیا ہے اور صوفیا کی انانیت اور جہلا کی نفسانیت کے درمیان فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ درد کے نزدیک شطحیات کا اہم فیکٹر سکر و مستی، وجد و تواجد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس وقت صوفی تصوف کے ابتدایی اور طفولیت کے مرحلے سے باہر آتا ہے اور سلوک کے درمیانی مراحل میں پہونچتا ہے جو کہ جوانی ،عروج و غلبہ سکر کا وقت ہوتا ہے اس وقت سالک کے دل پر جو واردات القاء ہوتے ہیں ان کو غلبہ شوق کی وجہ سے بیان کرنے لگ جاتا ہے جیسے کہ مثل مشہور ہے کہ" من عرف اللہ طال لسانہ" لیکن جب سالک پختہ مشق ہو جاتا ہے تب اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جو بھی اس پر القاء ہوتا ہے اسے درون سینہ دفن رکھتا ہے، اسے زبان پر نہیں لاتا اور اس کا بیان بھی معتدل ہو جاتا ہے: "چون بکہولت می رسند یعنی شروع معاملات نزول می شود کلام ایشان بحد اعتدال می آید و از شطحیات باز می ماند و چون بہ شیخوخت می رسند و دایرہ عروج و نزول تمام می گردد سکوت اختیار می کند و بی ضرورت سخن نمی گویند کہ من عرف اللہ کل لسانہ"(علم الکتاب، ص۱۲۷) طریقہ محمدیہ کے موسس و بنیان گزار ناصر عندلیب ہیں، لیکن میر درد نے طریقہ محمدیہ کے متعلق بہت سے طریقے، خصایص، اوراد و وظایف نیز اس سلسلے کے بہت سے ایسے اصول و قواید اور تعلیمات جو دیگر سلاسل سے جداگانہ ہیں، بیان کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کتاب میں جابجا اس سلسلے کی برتری و فوقیت اور انفرادیت کے ساتھ اس کو دیگر تمام طرق و سلاسل پر فوقیت دی ہے اور طریقہ محمدیہ کو دیگر تمام سلاسل تصوف کا متمم و خاتم بتایا ہے۔ اس سلسلے کے کچھ خصایص یہاں پر بطور مثال بیان کیے جا رہے ہیں جیسے محمدیوں کے نزدیک کفر طریقت یعنی شراکت نفسانیت اور مداخلت انانیت بھی شرک خفی شمار کیا جاتا ہے اور اس ملت متحدہ میں تفرقہ ڈالنا بھی شکر خفی ہے۔ وہ شطحیات صوفیہ کو بھی شرک خفی کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ درد صوفیہ کے متعدد طرق کو بھی شرک خفی شمار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک حدیث میں جو ہفتاد و دو ملت کا ذکر آیا ہے اس سے مراد صوفیہ کے مختلف گروہ ہیں(علم الکتاب، ص۸۸)۔ ان کے نزدیک یہ لازمی ہے کہ سارے سلاسل کو حق پر جانیں اگرچہ بعض پر بعض کو فضیلت حاصل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ محمدی جس وقت فناییت کے درجے پر پہونچ جایے تو اسے شطحیات سے دور رہنا چاہیے اور خدا کے رازہاے سربستہ کو افشاء کرنے سے خود کو بچانا چاہیے اسلیے کہ جو شخص خدا کے رازوں کی حقاظت کر سکتا ہو وہی محمدیوں کی امارت کا صحیح معنی میں مستحق ہے۔ محمدیوں کے یہاں بہترین ذکر تلاوت قرآن اور مطالعہ حدیث ہے نیز ان کے نکات کو سمجھنا بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح نالہ عندلیب (مولفہ ناصر عندلیب) کا مطالعہ بھی محمدیین کے یہاں اہمیت کا حامل ہے۔ محمدی گناہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے اس طریقہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ وہ توبہ استغفار کرے لیکن مکرم و محترم محمدی وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو وغیرہ۔ اس تصنیف سے ان کی عربی و فارسی دانی نیز دونوں زبانوں پر ان کی قدرت و مہارت کا بھی علم ہوتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں کویی ایسا موقع نہیں چھوڑا جہاں اپنی عربی دانی کا ثبوت نہ دیا ہو۔ اس کتاب میں عرفانی بیان کے ساتھ ساتھ سکر و صحو، رویت و تجلی خدا تعالی، فنا و بقا، قبض و بسط، رسالت و ولایت، حقیقت کشف و کرامت، خلوت و جلوت وغیرہ جیسے بہت سے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گیی ہے جو تصوف کے باب میں نکتہ پرکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مطالب کو بیان کرتے وقت سادگی بیان کے باوجود ان کی عبارات جابجا ثقیل و گنجلک نظر آتی ہے خاص طور پر جب ان کی بحث فلسفہ و کلام جیسے موضوعات پر ہو۔ انہوں نے اس کتاب میں صنعت اقتباس کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔
Khwaja Mir Dard (1721-1785) was born Syed Khwaja in Delhi. His ancestors had migrated from Bukhara to India but his father who worked as a royal mansabdar relinquished his position to lead the life of a Sufi. Dard received his comprehensive religious education under the supervision of his father. He spent all his life in Delhi and remained a witness to the invasions of Nadir Shah and Ahmed Shah Abdali, as also the Maratha conquest of North-west India. He was, however, keenly interested in music, both vocal and instrumental and he held soirees of music, and mastered the art to perfection. As a Sufi, he was respected equally by the royalty and the nobility. This Sufi poet and theologian of the 18th Century Delhi is an important representative of the Naqshbandi, Mujaddidi lineage of Sufism. He is also known as the leader and theoretician of the Muhammadi path because he fashioned himself in the image of the Muhammad, the last prophet of Islam.
Dard had mastery over the Arabic, Persian, and Urdu languages. His close reading of the holy Qur’an, Traditions of the prophet, jurisprudence, and religious literature, made their mark on his poetry. His expertise in music further defined the tone and tenor of poetic expression. Effortless in his expression and direct in his addresses, he emerged as a renowned mystic poet, both in Persian and in Urdu. He was, by turn, an impassioned advocate for poetry and humble apologist for art. He considered poetry merely as one talent among the many talents of mankind. Poetry, to him, was inspired speech addressed to both the human and the divine. He differentiated between two types of speech, or kalaam, one of them being internal, or nafsi, and the other being verbal, or lafzi. He believed that a poet negotiates between two types of speech: the external, or zaahiri; and the internal, or batini. This reflection on language, speech, and expression underline the modes of Dard’s poetic apprehension and expression. He has to his credit a collection of Urdu ghazals, a Persian Divaan, a prose discourse called Ilm-ul Kitaab, a compilation of mystical sayings called Chahaar Risaala, and a book on the Muhammadi path.
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets