غزل گوئی میں امیر خسرو کے پیش رو سعدی شیرازی ہیں ۔ آپ کی شاعری کا شباب عین اس وقت شروع ہوا جب سعدی اپنا شباب گزار چکے تھے۔ سعدی ، شیراز میں بیٹھے ہوئے غزل سرائی کر تے ہیں اور یہاں دہلی میں اہل ذوق ان کی شعر نوائی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، چنانچہ خسرو نے بھی غزل گوئی میں شیخ سعدی کی پیر وی کی۔ اس وجہ سے آپ کو طوطی ہند کا لقب ملا۔ امیر خسرو صرف مقلد نہیں تھے۔ انہوں نے غزل میں بعض نئی باتیں بھی پیدا کی ہیں سعدی نے غزل کے مزاج کے مطابق اسے زبان دی اور اس کے دامن کو پھیلا یا۔ اس لئے انہیں غزل کا امام کہا جاتا ہے لیکن ان کے غزلیات میں جذبات کی گرمی اور سوزو گداز کی تڑپ کم ہے۔ امیر خسرو نے اس کمی کو پورا کیا ہے۔ غزل کی روح کیا ہے۔ سوزوگداز ، جزبات واحساسات ، عشق ومحبت ، واردات قلبی ، محبوب کی بے نیازی ، ناز آفرینی ، عاشق کی نیاز مندی اور خاکساری ، فراق کی اذیتیں ، جزبات کی گرمی ، احساسات کی شورش ، جوش وحرارت جو کہ غزل کی خصوصیات ہیں ، ان کی غزلوں میں موجود ہیں۔ انہوں نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے ،پہیلیاں، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگارچھوڑے۔ انہیں دیوانوں کو سامنے رکھ کر اقبال صلاح الدین نے خسرو کی غزلوں کی ایک ضخیم کلیات ترتیب دی ہے جو چار جلدوں پر مششتمل ہے۔زیر نظر جلد اول ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free