ہشت بہشت فارسی زبان کی ایک مشہور مثنوی ہے جسے امیر خسرو نے سنہ 1302ء کے آس پاس قلم بند کیا۔ یہ مثنوی بھی خسرو کی خمسہ میں شامل ہے درحقیقت اس مثنوی کی بنیاد نظامی گنجوی کی ہفت پیکر ہے جو سنہ 1197ء کے آس پاس معرض وجود میں آئی تھی اور خود ہفت پیکر بھی فارسی زبان کے شاہ کار رزمیہ شاہ نامۂ فردوسی کے خطوط پر مبنی ہے۔ فردوسی نے اپنے اس شاہ کار کو سنہ 1010ء کے قریب تصنیف کیا تھا۔ نظامی کی ہفت پیکر کی تقلید میں خسرو نے بھی اپنی اس مثنوی میں بہرام گور پنجم کی افسانوی داستان کو موضوع بنایا ہے اور الف لیلہ کے اسلوب میں سات شہزادیوں کی زبان سے متعدد لوک کہانیاں پیش کی ہیں۔ مثنوی ہشت بہشت کے بہشت دوم میں جو کہانی مذکور ہے اس کا ترجمہ مغربی زبانوں میں بھی ہوا اور اس کے متعلق مشہور ہے کہ امیر خسرو پہلے مصنف ہیں جنہوں نے سراندیپ کے تین شہزادوں کے کردار متعارف کروائے اور اونٹ کی مبینہ چوری اور بازیابی کی کہانی لکھی۔ اس مثنوی میں آٹھ بہشت کا جو تخیل پیش کیا گیا ہے وہ جنت کے اسلامی تصور کے عین مطابق ہے، جس کے آٹھ دروازے ہیں اور ہر دروازے پر انتہائی بیش قیمت پتھر جڑے ہوئے ہیں۔ان آٹھ میں سے سات بہشت تفریحی عمارتوں،گنبدوں پر مشتمل ہیں جو بہرام کے علاجِ قصہ گوئی کے لیے تعمیر کیے گئے ہیں۔ مثنوی میں خسرو نے آٹھوں بہشت کے طرز تعمیر اور نقشوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ زیر نظر مثنوی، طلباء و قارئین کی سہولت کے لئے آسان، مفصل اور مشرح کرکے شائع کی گئی ہے۔ جس میں مثنوی کے ایک ایک جز پر طویل گفتگو کے علاوہ، شاعری اور خسرو کی شاعری پر بھی معلومات فراہم کی گئی ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free