ساغر کو چاہتا ہے نہ جی اب شراب کو
ساغر کو چاہتا ہے نہ جی اب شراب کو
دیکھا ہے چشمِ مست کو مستِ شباب کو
ہم دل پہ لکھتے جاتے ہیں مہر و عتاب کو
ہو جائے گا حساب بھی روزِ حساب کو
تم ہی پلا گیے تھے ہمیں اپنے ہاتھ سے
اس دن سے ہم نے منہ نہ لگا یا شراب کو
انکار کرکے خونِ تمنا نہ کیجیے
لب پر نہ آنے دیجیے ایسے جواب کو
ہم بھی تماشہ برق تجلی کا دیکھ لیں
پردہ سے باہر آکر الٹ دو نقاب کو
گر ہوں وہ بیخبر تو شکایت کی جا نہیں
اب کیا کہیں نگاہ تغافل مآب کو
کیا کر رہے ہو چھوڑ دو آئینہ ہاتھ سے
دیکھے گا کیا یہ کور رخ لا جواب کو
آیا خیال جب کسی یوسف جمال کا
دیکھا ہے جاگتے میں زلیخا کے خواب کو
زاہد ہمارے ہاتھ سے دو گھونٹ پی کے دیکھ
بالائے طاق رکھ دے عذاب و ثواب کو
پڑ جاتے ہیں اسی سے تو رخنے نباہ میں
اپنا تو ہے سلام تمہارے عتاب کو
رہزن تمہارا حسن ہے غارت گر شکیب
الزام دیتے ہو دل خانہ خراب کو
بیدلؔ بتوں سے دل کے بچانے کا حوصلہ
ہم بھی سلام کر لیں گے اچھا جناب کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.