وہی بزم ہے وہی میکدہ وہی میکدہ کا مقام ہے
وہی بزم ہے وہی میکدہ وہی میکدہ کا مقام ہے
مگر ایک اُن کے نہ ہونے سے نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے
ہوا جب سے پیرِ مغاں نہاں ہوا بزم کا کچھ عجب سماں
نہ وہ میکدہ نہ وہ جام ہے نہ وہ میکدہ کا نظام ہے
دیا گلستاں کے لیے لہو سہے ہر طرح کے ستم مگر
نہ چمن میں ہے میرا ذکر اب نہ وفاشعاروں میں نام ہے
کبھی ایک سجدہ سے ہوتی تھی تری جلوہ گاہ کی راہ طے
مگر اب کہاں وہ خلوصِ دل نہ وہ مقتدی نہ امام ہے
ہے ہر ایک ذرہ سے وہ عیاں گو وہ لاکھ پردوں میں ہے نہاں
جو نظر نہ آئے نگاہ کو تو عقیدت اپنی ہی خام ہے
جو کہیں بھی ان سے تو کیا کہیں وہ سنیں گے دل کا فسانہ کب
وہ جب اس طرح سے ہیں بدگماں نہ سلام ہے نہ پیام ہے
جسے پیتے پیتے نگاہ سے ،تھے حجاب جتنے وہ اٹھ گئے
یہ بتا دے شیخ حرم مجھے وہ شراب کیسے حرام ہے
یہی رشک روزِ ازل سے ہے یہی فکر حورو ملک کو ہے
نہ فرشتہ جاسکے جس جگہ وہ بشر کا ادنیٰ مقام ہے
فقط ایک اخترِؔ بینوا ترے نقشِ پا پہ ہے چل رہا
یہ وہ دور ورنہ ہے ساقیا کہ ہر ایک رند امام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.