کیا یہ صورت گری اے جذبۂ دل ہوتی جاتی ہے
کہ وہ صورت نگاہوں کے مقابل ہوتی جاتی ہے
جبیں جھکنے لگی ہے ہر قدم پر کوئے جاناں میں
زہے قسمت کہ پوری حسرتِ دل ہوتی جاتی ہے
مزہ دینے لگی ہے شمع و پروانہ کی بے چینی
یہ دنیا واقفِ اسرار محفل ہوتی جاتی ہے
خدا رکھے خدا رکھے یوں ہی یہ موجِ بحرِ غم
بہ ظاہر موج ہے باطن میں ساحل ہوتی جاتی ہے
مجھے آواز دیتی ہیں فضائیں یاس و حرماں کی
محبت اور مشکل وار مشکل ہوتی جاتی ہے
کبھی نالے کیے پہروں کبھی آہیں کبھی شیون
رسائی اس طرح منزل بمنزل ہوتی جاتی ہے
تصور نے بسایا ہے نیا عالم نئی دنیا
میری تنہائی بھی ہم رنگِ محفل ہوتی جاتی ہے
ہمیشہ سے گذاری ہے تڑپ کر زندگی ہم نے
محبت سہل ہی کب تھی جو مشکل ہوتی جاتی ہے
میری گم گشتگی بہزادؔ مجھ کو راس آئی ہے
کہ میرے واسطے وار فتہ منزل ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.