بیباک نگاہی کیا کرتے غیرت کو گوارا ہو نہ سکا
جلوے تو کسی کے ہر سو تھی ہم سے ہے نظارا ہو نہ سکا
جیتے بھی تو ہم کیوں کر جیتے جینے کا سہارا نہ ہو سکا
چھپ چھپ کے بھی ان سے مل لینا قسمت کو گوارا ہو نہ سکا
جو اشک بہے تھے فرقت میں کونین پہ بھاری ہو کے رہے
اک اشک بھی شبنم بن نہ سکا اک اشک بھی تارا ہو نہ سکا
حیراں ہوں کہ یہ کیا بات ہوئی ساحل لگی آکر کشتی
موجیں بھی ہماری ہو نہ سکیں طوفاں بھی ہمارا ہو نہ سکا
تقدیر نے بخشا تھا وہ غم جس سے ہوا غارت خود کا بھرم
آنکھوں سے گرے دو اشکِ الم جب ضبط کا یارا ہو نہ سکا
یہ آج فضا خاموش ہے کیوں ہر ذرہ کو آخر ہوش ہے کیوں
یا تم ہی کسی کے نہ ہو سکے یا کوئی تمہارا ہو نہ سکا
بہزادؔ حزیں ہے سجدہ کناں مجبورِ وفائے قلب تپاں
دنیا سے کنارا کر تو لیا اس در سے کنارا کر نہ سکا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.