کسی سے کوئی شکوہ ہے نہ دل میں کوئی نفرت ہے
کسی سے کوئی شکوہ ہے نہ دل میں کوئی نفرت ہے
ملے ہو تم مجھے جب سے یہ دنیا خوبصورت ہے
ہماری بن نہیں سکتی کبھی شیخ و برہمن سے
گنہ وہ جس کو کہتے ہیں وہی اپنی عبادت ہے
کہاں موقع ملا مجھ کو تمہارے ساتھ رہنے کا
سفر میں مل گئے طرزی تو یہ سمجھا سعادت ہے
گلوں کو خار کہتے ہیں خلش کو شبنمی ٹھنڈک
اشارہ اور ہی کچھ ہے غزل کی یہ نزاکت ہے
تمہاری ہر ادا کو جانتا پہچانتا ہوں میں
خموشی ہے اگر لب پر تو یہ میری شرافت ہے
ہمارا کچھ نہیں دل تھا وہ کب کا دے دیا تجھ کو
ذہانت تھی بس اک دولت وہ بھی تیری امانت ہے
تمہارے حسن روز افزوں میں میرا بھی تو حصہ ہے
میرا حصہ مجھے دے دو، نہ دوگے تو خیانت ہے
یہ کیسی دوستی ہے دوستوں کو تشنہ رکھتے ہو
بڑھی جو تشنگی حد سے تو اعلانِ بغاوت ہے
جگر کا خون ہوتا ہے تو پھر اشعار بنتے ہیں
جگر سوزی و خوں ریزی میں ہی سچی حلاوت ہے
تمہارے مکر و سازش نے دکھایا ہے مجھے رستہ
ترے جور و ستم سے ہی میری دنیا سلامت ہے
جو نکلے خون کے قطرے چھلک کر میری آنکھوں سے
یہ خود کردہ گناہوں پر بہے اشکِ ندامت ہے
تو اپنی قدر کر ناداں تجھے نائب بنایا ہے
تری قسمت میں دنیا کی قیادت اور امامت ہے
سناتے ہیں میاں محمودؔ اب تو آپ بیتی ہی
بظاہر داستانِ غم بباطن اک حکایت ہے
- کتاب : Mata-e-Haque (Pg. 53)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.