چہرے سے وہ نقاب جو سر کا کے رہ گئے
چہرے سے وہ نقاب جو سرکا کے رہ گئے
ارمان میری چشم تمنا کے رہ گئے
میخانہ امید میں ہم جاکے رہ گئے
ساقی نے ڈالی آنکھ تو غش کھا کے رہ گئے
لائے نہ تاب دید تو غش کھا کے رہ گئے
دعوے تمام حضرت موسیٰ کے رہ گئے
ہم اپنی سخت جانی سے جھنجھلا کے رہ گئے
گردن جھکائی کٹ گئے شرما کے رہ گئے
آنکھیں ملائیں کیا کہ پلائے ہیں خم کے خم
احسان ہم پہ ساغر و صہبا کے رہ گئے
کہنے دیا نہ حشر میں کچھ رب حسن نے
شکوے مری زبان پہ آ آ کے رہ گئے
طولانیاں فراق کی بڑھتی رہیں یونہی
پھندوں میں آکے زلف چلیپا کے رہ گئے
وہ بے خودی میں لےگئے جاں تک نکال کر
ہم محو دید عارض زیبا کے رہ گئے
وہ ناز آفریں جو تصور میں آگیا
ہم دونوں ہاتھ شوق میں پھیلا کے رہ گئے
اس بے خبر کی آکے کسی نے خبر نہ دی
نالے اگر کئے تو وہیں جا کے رہ گئے
مشق ستم کے واسطے باقی ہے دم ابھی
یہ کیا ستم کیا کہ ستم ڈھا کے رہ گئے
ٹھنڈا تو کرسکے نہ کلیجے کی آگ کو
تیروں کا مینہ وہ سینے پہ برسا کے رہ گئے
یہ تھے میرے نصیب کہ میخانہ کھل گیا
اغیار منتظر در توبہ کے رہ گئے
لایا نہ ایک کو بھی میں اپنے خیال میں
جلوے مری نظر میں بہت آکے رہ گئے
بس اور کیا کہوں کہ خدا آگیا نظر
وہ برق حسن دل پہ جو لہرا کے رہ گئے
قاتلؔ کی انتظار میں گزری تمام عمر
ارمان خون ہو کے تمنا کے رہ گئے
- کتاب : دیوان قاتل (Pg. 299)
- Author : شاہ قاتلؔ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.