عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب اَفکار، تو کھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رہتے ہیں وہ توصیف و ثنائے شہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب اَفکار، تو کھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رہتے ہیں وہ توصیف و ثنائے شہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
ادیب راے پوری
MORE BYادیب راے پوری
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب اَفکار تو کھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رہتے ہیں وہ توصیف و ثنائے شہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار
ورنہ وہ سید عالی نسبی، ہاں وہی امّی لقبی، ہاشمی و مطّلبی و عربی و قرشی و مدنی اور کہاں ہم سے گنہ گار
آرزو یہ ہے کہ ہو قلب معطر و مطہر و منور و مجلّٰی و مصفّٰی، دُرِ اعلیٰ جو نظر آئیں کہیں جلوۂ روئے شہہِ ابرار
جن کے قدموں کی چمک چاند ستاروں میں نظر آئے، جدھر سے وہ گذر جائے، وہی راہ چمک جائے، دمک جائے، مہک جائے، بنے رونق گلزار
سونگھ لوں خوشبوئے گیسوئے محمد وہ سیاہ زلف نہیں، جس کے مقابل یہ بنفشہ، یہ سیوتی، یہ چنبیلی، یہ گلِ لالہ و چمپا کا نکھار
جس کی نکہت پہ ہیں قربان گل و برگ و ثمن نافہ آہوئے ختن بادِ چمن بوئے چمن نازِ چمن نورِ چمن رنگِ چمن سارا چمن زار
یہ تمنا کہ سنوں میں بھی وہ آواز شہہِ جن و بشر، حق کی خبر، خوش تر و شیریں ز شکر، حسنِ فصاحت کا گُہر، نطق کرے ناز سخن پر
وہ دل آرام صدا، نامِ خدا، جس پہ فدا، غنچہ دہن، طوطی صد رشکِ چمن، نغمۂ بلبل زگلستانِ عدن ،مصر و یمن جس کے خریدار
اک شہنشاہ نے بخشے جو ثمر قند و بخارا، کسی محبوب کے رخسار کے تل پر مگر اے سید عالم، تیری ناموس تیری عظمت پر
اے رسول مدنی ! ایک نہیں لاکھوں ہیں قربان گہ عشق کے ہر کوچہ بازار میں سر اپنا ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں کرنے کو نثار
بخش دیتے ہیں شہنشاہ سمر قند و بخارا، کسی محبوب کے رخسار کے تِل پر، مگر اے خلق کے رہبر، اے میرے مہرِ منور
میں کروں تجھ پہ تصدق، دمِ عیسٰی، یدِبیضا، درو دیوار حرم کعبۂ دل، اِن سے بڑی کوئی نہیں شے میرے پاس، میری چشمِ گُہربار
آپ کے ذکر میں ہیں نغمہ سرا سارے ہدی خوانِ عرب، نغمہ نگارانِ عجم، شوکت الفاظ ادب، عظمتِ قرطاس و قلم، بادِ صبا موجِ نسیم
دہنِ بلبلِ شیریں، لحن قمری و طوطی، شب مہتاب، ستارے، ملَک و حور و جناں جن کی نواؤں میں درودوں کا حصار
ورفعنا لک ذکرک کی اس اک آیتِ توصیف کی توصیف میں، تفسیر میں، تشریح میں، توضیح میں، تضمین میں ہر عہد کی شامل ہے زبان
لب حسان و رواحہ و لب فاطمہ زہرا و علی، عابدِ بیمار و بوصیری، دہنِ عرفی و جامی لب سعدی و رضا سب سرشار
عشق کے رنگ میں رنگ جائیں مہاجر ہو کے پختون وبلوچی ہو کہ پنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار
یہ مہاجر کی ہے صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز
حرم کعبہ میں عرفات کے میدان میں یا روضۂ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار
ایسا محبوب دیا حق نے تمھیں صل علٰی، جس کا مماثل نہ مقابل کہ لقب جس کو حریص کا دیا، اتنا کیا جس نے گنہ گاروں سے پیار
اے خدا ! اے شہ کونین کے رب! لفظ حریص کے سبب، ایک ہوں سب، وہ عجمی ہوں کہ عرب، تاکہ ملے امت مرحوم کو پھر کھویا وقار
یا نبی آپ کا یہ ادنیٰ ثنا خواں، در رحمت کا گدا، دیتا ہے در در یہ صدا، چاہتا ہے آپ سے چاہت کا صلہ، اپنی زباں میں تاثیر
سن کے سب اہل چمن، اس کا سخن، ان کو بھی آجائے حیا، سر ہو ندامت سے جھکا اور نظر دیکھے وہ اسلاف کی الفت کا نظارا ایک بار
اے ادیؔب اب یونہی الفاظ کے انبار سے ہم کھیلتے رہ جائیں گے مگر حق ثنا گوئی ادا پھر بھی نہ کر پائیں یہ جذبات و زبان و قلم و فکر و خیال
اُن کی مدحت تو ملائک کا وظیفہ ہے صحابہ کا طریقہ ہے عبادت کا سلیقہ ہے یہ خالق کا پسندیدہ ہے قرآن کا ہے اِس میں شعار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.