اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے
اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے
جو دل سے ہر اک غیر کی چاہت کو بھلا دے
بس دیکھ لیا دنیا کے رشتوں کا تماشا
مخلوق سے امید کے سب دیپ بجھا دے
پاکیزہ تمنائیں بھی لاتی ہیں اداسی
ہر ذوقِ طلب، شوقِ تمنا ہی مٹا دے
اک میں ہوں، فقط تو ہو اور عالمِ ھو ہو
اے حسنِ ازل سارے حجابات اٹھا دے
ہے روح کو ہر لمحہ تیرے وصل کی امید
آ زیست کی شب کو کبھی صبح بنا دے
کیوں نیک گمانوں کے سہارے پہ جئیں ہم
ان سارے فریبوں کو سرابوں کو ہٹا دے
دیکھے یا نہ دیکھے یہ تو محبوب کا حق ہے
نہ تو آہ و فغاں کر نہ تو غیروں سا گلہ دے
دے لذتِ دیدار کی مدہوشی میں وہ ہوش
جو ہستی کی تعریف و تعین کو گنوا دے
میں خود بھی کبھی ڈھونڈ نہ پاؤں خود کو
یوں آتشِ سوزان سے میری راکھ جلا دے
ہوں حسرتِ دید لیے تیری دہلیز پہ کب سے
اک بار کرم کی نظر کر ہر اک پردہ اٹھا دے
کیوں ہُوک سی اٹھتی ہے دلِ زار میں طاہرؔ
اس ہستئ ویراں کے خس و خاشاک جلا دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.