خود پردہ میں چھپ بیٹھے ہیں اور دنیا کو حیرانی ہے
خود پردہ میں چھپ بیٹھے ہیں اور دنیا کو حیرانی ہے
ہیں چاروں جانب ڈھونڈھ رہے مخلوق ہوئی دیوانی ہے
آپس میں سر ٹکراتے ہیں اور عقل کے لٹھ ہیں کندھوں پر
اندھوں نے اندھیرے میں مل کر یاں خاک بہت سی چھائی ہے
ہیں ملت و مذہب جھگڑے ہیں اور دھرم ریلیجن رگڑے ہیں
لڑواتا ہے خود ساروں کو اس جھگڑے کا خود بانی ہے
تسبیح کہیں پر ہوتی ہے کوئی مالا لے کر جیتا ہے
سب اس کے ہجر میں نالاں ہیں اور وصل کی سب نے ٹھانی ہے
کوئی مسجد ہے یا شوالہ ہے کوئی گرجا ہے یا مندر ہے
ہر ایک میں قصہ اس کا ہے ہر اک میں اس کی کہانی ہے
ہر ملت میں ہر مذہب میں ہر مجلس میں ہر محفل میں
سب اپنی ہی اس کو کہتے ہیں وہ سب کا پیارا جانی ہے
کوئی رام کہے کوئی پرمیشر کوئی گاڈ کہے کوئی الا اللہ
توحید نہ مانے منہ سے کوفی پر دل سے سب نے مانی ہے
سب سیج پہ اس کی حاضر ہیں اور سب کو گھمنڈ پیا کا ہے
کوئی سوہنی بانکی چھپلی ہے کوئی لولی اندھی کانی ہے
وہ ساروں کا ان داتا ہے اور سب کا پالن ہارا ہے
کوئی عابد زاہد گیانی ہے یا پاپی فاسق زانی ہے
یہ سورج چاند ستارے سب مخلوق پہ یکساں تاباں ہیں
ہے عام ہوا ساروں کے لیے اور عام ہی اس کا پانی ہے
ہم کوئے بتاں میں جاتے ہیں اور ٹھوکریں واں کی کھاتے ہیں
انوار بتوں میں اس کے ہیں اس واسطے سر گردانی ہے
یوں ہر اک آنکھ سے مخفی ہے پر ہر اک شے سے ظاہر ہے
ہر چیز میں دیکھو نور اس کا اس چیز کو سمجھو فانی ہے
اشلوک پڑھے چشتیؔ نے یہ اجمیری گُر کے دوارے سے
مقصود وہی سمجھے ان کا جو عارف ہے یا گیانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.