سخن ہے باطل جو تو نے سمجھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
سخن ہے باطل جو تو نے سمجھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
کہ خلق اس سے ہے صاف پیدا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
نہ شیخ ہرگز کبھی کہے گا کہ تو ہے اس میں وہ تجھ میں
ہے کفرِ وحدت میں کہنا ایسا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
اس حرفِ غیرت کو کب مٹایا یہ پردہ تو نے کہاں اٹھایا
دوئی تو خود ہے یہ تیرا کہنا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
کمال اپنا فنا میں جانو یہ نکتہ حق ہے تم اس کو مانو
کبھی نہ کرنا تصور ایسا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
تھی عین صورت کی یہ بھی صورت کہ کی فرشتوں نے جس کی حرمت
نہ کیوں ہو صادق یہ قول حق کا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
کیا جب اپنے سے حسن پیدا تو عشق پھر ہو کہ اس پہ سیدا
یہی ترانہ ہمیشہ گایا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
وہ لا تعین لیے تعین مقامِ عریاں سے ہو کے ظاہر
اسدؔ سے کہتا ہے اب تو دیکھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
- کتاب : Rooh-e-Sama, Part 2 (Pg. 239)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.