سنا ہے اپنی بربادی کے افسانے کہاں جاتے
سنا ہے اپنی بربادی کے افسانے کہاں جاتے
ترا در چھوڑ کر خواجہ یہ دیوانے کہاں جاتے
ہمیشہ بھیک ہم نے تو اسی چوکھٹ سے پائی ہے
ہم اپنا دامنِ امید پھیلانے کہاں جاتے
تمہارے سر پہ خواجہ تاج ہے مشکل کشائی کا
ہم اپنی الجھنیں اوروں میں سلجھانے کہاں جاتے
زمانے بھر کو داروئے شفا اس در سے ملتی ہے
ہم اپنے دل کے گہرے زخم دکھلانے کہاں جاتے
مقدر ہے ازل سے جب یہیں مرنا یہیں جینا
تو پھر اے شمعِ سنجر تیرے دیوانے کہاں جاتے
جبینوں پر نہ ہوتا نقش گر اس آستانے کا
غلامانِ معین محشر میں پہچانے کہاں جاتے
درِ خواجہ پہ بگڑی قسمتیں بنتی ہیں اے عرشیؔ
ہم اپنی لوحِ پیشانی بدلوانے کہاں جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.