چلتے چلتے رک چکی تھی جبکہ نبضِ کائنات
دلچسپ معلومات
مناقب در شان حضرت امام حسین (کربلا-ایران)
چلتے چلتے رک چکی تھی جبکہ نبضِ کائنات
نوعِ انسانی کی تھی ہر اک تمنا بے ثبات
پھیر لی تھی حق نے عالم سے نگاہِ التفات
لے رہی تھی ہچکیوں پر ہچکیاں روحِ حیات
سرنگوں مجبوریاں تھیں پائے استبداد پر
مہرِ تیغِ ظلم تھی چسپاں لبِ فریاد پر
مال وزر کی جگمگاہٹ سے نظر بے کار تھی
آدمیت کے گلے پر نقرئی تلوار تھی
راستی مجبور تھی اور گمرہی مختار تھی
ہاں مگر اک روح ایسے دور میں بیدار تھی
جس نے اپنا سر دیا انسانیت کے نام پر
خوں بہا باقی ہے جس کا گردنِ اقوام پر
رو برو جس کے رہا روئے مشیت بے نقاب
جس کے ذروں سے چراتا ہے نگاہیں آفتاب
ہر نفس جس کا امینِ رازِ روحِ انقلاب
جس نے اپنے خون سے چھاپی اخوت کی کتاب
نور کی بھر پور ضو پردہ درِ ظلمات ہے
دہ تنِ تنہا حسین ابنِ علی کی ذات ہے
جس کا چہر ہ مشعلِ نورِ ہدایت وہ حسین
جس امامت پر رہی نازاں نبوت وہ حسین
جس کا ہر ہر سانس ہے عینِ عبادت وہ حسین
مسکرائی دیکھ کر جس کو مشیت وہ حسین
جس نے ظلمِ ناروا کا سر کچل کر رکھ دیا
جان دے کر ایک عالم کو بدل کر رکھ دیا
جس نے فرزندِ جواں کا داغ اٹھایا وہ حسین
سایۂ شمشیر میں قرآں سنایا وہ حسین
انتہائے غم میں بھی جو مسکریا وہ حسین
جس نے مٹ کر نوعِ انساں کو بنایا وہ حسین
لے رہا ہے جو خراجِ درد خاص و عام سے
جان میں جان آئی جس کے موت کے پیغام سے
جس نے سینچا خون سے اپنوں کے گلزارِ خلیل
جس کی ذاتِ پاک معیار شرافت کی دلیل
ہر نظر میں جس کی ہستی بے مثال و بے عدیل
قلبِ دشمن میں مکیں ہے جس کا اخلاقِ جمیل
نقش ایسا کیا مٹے گا گردشِ افلاک سے
آج تک اک لو نکلتی ہے جبینِ خاک سے
آج بھی خود داریوں کی راہ نا ہموار ہے
آج بھی خطرے میں عزم و جذبۂ بیدار ہے
وقت کو ایسی ہی قربانی ابھی درکار ہے
آج تک سونی مگر جلوہ گہِ ایثار ہے
نقشِ ہستی میں حسینی رنگ بھرنا چاہیے
زندگی کی آرزو میں پہلے مرنا چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.