رخ بنما کہ اے پری صبح امید من توئی
دلچسپ معلومات
’’نغماتِ سماع‘‘ کے حوالے سے یہ غزل خانقاہ معظم، بہار شریف کے حضرت شاہ محمد شفیع فردوسی کی بتائی جاتی ہے جب کہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ شیخ جمال الدین احمد ہانسوی نے اپنے پیرومرشد بابا فریدالدین گنجِ شکر کی طرف خیال کرتے ہوئے لکھا تھا۔
رخ بنما کہ اے پری صبح امید من توئی
برقع کشا کہ اے صنم جلوۂ عید من توئی
1. چہرہ دکھا اے محبوب کہ تو میری صبح امید ہے۔ برفق ہٹا تو اے صنم کہ میری عید کا توہی جلوہ ہے (یعنی تیری جلوہ افروزی میری عید ہے)۔
ہر سخنے کہ می کنی جاں بحلاوت آیدم
گنج شکر بہ زیر لب پیرفرید من توئی
2. تیری ہر بات سے مجھ کو حلاوت جاں حاصل ہوتی ہے، گنج شکر (شکر کا خزانہ) تیرے زیر لب ہے۔ میرا پیر فرید توہی ہے۔
شکوہ ز دہر چوں کنم رنج ز چرخ چوں برم
ایکہ زفضل ایزدی بخت سعید من توئی
3. زمانے کا شکوہ کیوں کروں، آسمان (کے ستم) کارنج کیوں اٹھاؤں؟ خدا کے فضل سے تو میری خوش نصیبی ہے۔
بخت شدہ بکام من گشت مراد حاصلم
تاسگ کوئے تو مرا گفت مرید من توئی
4. مجھے تقدیر موافق اور مراد حاصل ہوگئی ، جب تمہاری گلی کے کتے نے کہہ دیا کہ تو میرا مرید ہے۔
در تن من ہزار جاں رقص کناں بر آمدہ
یار مرا چواے شفیعؔ گفت شہید من توئی
5. میرے محبوب نے جب مجھ کو کہہ دیا کہ اے شفیع! تو میرا شہید (شہید محبت) ہے تو اس وقت رقص کرتی ہوئی ہزار جانیں، میرے مقتول جسم میں آگئیں (اور مجھے حیات سرمدی مل گئی جو شہید راہ خدا کو ملتی ہے)۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 323)
- Author :شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.