Sufinama

قوالی

MORE BYمیکش اکبرآبادی

    قوالی کا لفظ بھی اردو ہے اور مصنوعی لحاظ سے بھی اردو ہی کی طرح ہے یعنی خالص ہندوستانی ہے اور ہندوستان ہی کی پیداوار ہے، بقولِ مشہور رونا اور گانا کون نہیں جانتا، کوئی قوم ایسی نہ ہوگی جس کی خلوتیں اور محفلیں نغمہ طرب نوحہ غم سے نہ گونجی ہوں، موسیقی کے فن کی شکل اختیار کرنے اور اس کے ضابطے بننے سے پہلے اس کی ہزاروں صورتیں قائم ہو چکی ہوں گی، آج بھی جغرافیائی اعتبار سے اصولی اور بے اصولی موسیقی کی ہزاروں قسمیں کی جا سکتی ہیں لیکن زیر بحث موضوع موسیقی کے فن بن جانے کے صدیوں بعد کی ایجاد ہے اس لئے اس میں فن کے تمام اصول کا لحاظ رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے اور اسے ایک باضابطہ صنف شمار کیا جاتا ہے اگرچہ اس کا تعلق ایک خاص فرقہ یعنی صوفیوں سے ہے، عرب اور ایران وغیرہ میں صوفیوں کی محفلوں میں ساز و نغمہ باز پا چکے تھے، ان محفلوں کو سماع کی محفل اور گانے والوں فنی مطرب یا گوئندہ کہا جاتا تھا، اسلام کے ایک گروہ یعنی فقہا نے عموما سماع کو ناجائز قرار دے دیا ہے اور مسلئہ سماع صوفیوں اور فقہیوں میں صدیوں سے موضوع اختلاف چلا آیا ہے، صوفیوں کے علاوہ محدثین کا گروہ بھی اس مسلے پر فقہا کا ہم نوا نہیں ہے جیسا کہ امام نووی اور امام بخاری نے لکھا ہے کہ حرمت فنا کے بارے میں کوئی حدیث درست نہیں ہے۔

    ہندوستان میں وارد ہونے سے صدیوں پہلے صوفی گانا سنتے تھے اور اسے مزہباً جائز سمجھتے تھے، ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کی آب و ہوا اور ماحول سے متاثر ہوکر صوفیوں میں گانا سننے کا رواج ہوا، شیخ ابو طالب مکی، شیخ شہاب الدین سہروردی اور امام غزالی جیسی عظیم شخصیوں نے اپنی کتابوں میں سماع کے جواز پر مستقل باب لکھے ہیں اور بہت سے مصنفین نے پیغمبر اسلام، ان کے صحابہ اور ثقاتِ اسلام کے عمل اور قول سے گانا سننا جائز ثابت کیا ہے، دوسری طرف فقہا نے بھی اپنے دعوی پر اپنے اماموں کے اقوال و اجتہاد کو پیش کیا ہے، بہرحال! یہ مسلم ہے کہ سماع کا ذوق صوفیوں میں بہت قدیم ہے، اسی طرح یہ بھی غلط مشہور ہے کہ ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کے صوفی سماع کو رواج دینے اور اس کی ابدا کے ذمہ دار ہیں، شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اخبارالاخیار میں حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری کے حال میں لکھا ہے۔

    (قاضی حمیدالدین ناگوری کا تعلق سلسلہ سہروردیہ سے ہے)

    ان کے مشرب پر وجد و سماع غالب تھا گانا سننے کے بہت شوقین تھے، اس زمانے میں سماع کا ان کے برابر کوئی شوقین نہ تھا، علما نے ان کے لئے محضر تیار کیا تھا، ان کے بعد حضرت شیخ نظام الدین اؤلیا نے اس کو سمجھ کرپا رکھا، تغلق شاہ کے زمانے میں ان پر بھی ویسا ہی محضر پیش کیا گیا‘‘

    حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری کے خلاف وارد گیر بڑھتی ہی گئ لیکن جب سلطان شمس الدین التمش کو یہ معلوم ہوا کہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی ان محفلوں میں شریک ہوتے ہیں تو یہ سختی ختم ہوگئ کیونکہ سلطان خواجہ قطب صاحب سے بیت تھا، اس کی تفصیل جہاں تک مجھے یاد ہے خواجہ حسن نظامی صاحب نے ”نظامی بنسری“ میں لکھی ہے، اس سلسلے میں حضرت سلطان المشائخ کے ایک مرید شیخ فخرالدین رازی نے سماع کے جواز میں ایک رسالہ ”اباحتہ السماع“ کے نام سے لکھا تھا یہ رسالہ چھپ گیا ہے اور ایک خاص بات اس میں یہ ہے کہ شاید سب سے پہلے کھل کر یہ بات کہی گئ ہے کہ صوفیوں کا ایک علاحدہ اور مستقل فرقہ ہے جو اصول کے اعتبار سے فقہا اور محدثین سے علیحدہ ہے۔

    قوالی کی ایجاد:- قوالی کے موجد بالاتفاق حضرت امیر خسرو دہلوی ہیں، امیر خسرو ایک صاحبِ دل صوفی بھی تھے، عدیم المثال موسیقی داں بھی اور ایک بے نظیر شاعر بھی، ان کے سوا کسی کی مجال بھی نہ تھی کہ قوالی جیسی صنف ایجاد کر سکتا جو غزل کے مزاج کے بھی موافق ہو، اہل حال کی طبیعت کے بھی مناسب ہو اور اصول موسیقی سے بھی سرِ مو انحراف نہ کرے، قوالی دراصل اس امتزاج کا نام ہے جس میں غزل کا حسن، موسیقی کا روپ اور ارباب دل کا کیف شامل ہے۔

    غزل گانے والوں کے لئے ایک مشکل یہ ہے کہ غزل کی بحریں عموماً مختصر ہوتی ہیں اور راگ راگنیوں کی متعین شکل تب تک ظاہر نہیں ہوتی جب تک کہ ان کے پورے سر مقام واضع اور ظاہر نہ ہوں، راگ کی پوری شکل ظاہر ہونے کے لئے ایک مستقل اور معین وقفہ درکار ہے اگر اس وقفے سے پہلے غزل کا مصرع یا شعر ختم ہوگیا تو راگ کی شکل واضع نہ ہوگی، اس مشکل کو اکثر آلاپ سے حل کیا جاتا ہے لیکن ارباب ذوق اور خصوصاً وہ لوگ جن کے کیف کا انحصار غزل کے الفاظ و مضامین ہی پر ہے، ان زائد اور بے معنیٰ آوازوں کے کس طرح متحمل ہوسکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ قوالی کی ایجاد اس شکل کو حل کرنے کے لئے کی گئ ہے اس کا کمال یہی ہے کہ الفاظ اور الفاظ کی طرح راگنی کی بھی صورت نہ بگڑنے پائے، راگنی کا لحاظ رکھنے کے لئے بعض اوقات تکرارِ الفاظ کی بھی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔

    بعض ارباب فن قوالی کو باعتبار فن خاص اہمیت نہیں دیتے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ غزل اور خصوصاً قوالی کے انداز میں انہیں اپنے کمالاتِ فن ظاہر کرنے کے لئے میدان نہیں ملتا انہیں کمالات کی نمائش اور اپنا فن زیادہ عزیز ہے، اس سے بحث نہیں کہ سننے والے بد مزہ ہو رہے ہیں یا لطف اندوز، کہتے ہیں کہ حضرت امیر خسرو نے قوالی کے ضمن میں جو ایجادیں کی تھیں وہ قول قیانہ اور نقش گل کے نام سے مشہور ہیں، قول کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کا کوئی قول بحسنہ کسی راگنی میں ڈھال لیا جائے، عربی نثر کو ہندوستانی موسیقی میں اس طرح باندھ لینا کہ قول بھی نہ بگڑے اور راگنی بھی پوری ہو جائے ممکن نہ تھا اس لئے ترانے وغیرہ کے بول شامل کرکے راگنی پوری کی جاتی ہے، اس موقع پر مثال کے لئے ایک قول نقل کیا جاتا ہے، یہ قول حضرت امیر خسرو کا بنایا ہوا ہے، اصل حدیث یا قول ہے ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس کا میں مولا ہو اس کے علی مولا ہیں، یہ حدیث خم غدیر کے نام سے مشہور ہے اور حضرت علی کی ایک بہت بڑی فضیلت کی سند میں لائی جاتی ہے، حضرت امیر نے اس قول کو اس طرح باندھا ہے، اس کا صحیح اندازہ کسی موسیقی داں کی زبان سے سنا ہوسکتا ہے۔

    من کنت مولاہ فعلی مولاہ

    در توم تا نانانانا نانانانالے

    الا لی الا لی اللی اللّه يا لَلَے الا لی الا لی يا لَلَے

    من کنت مولاہ فعلی مولاہ

    قول کے علاوہ قلبانہ اور نقش گل کے نام تو بعض اہل فن سے سنے ہیں مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ہیں کیا، ہندوستان کے مشہور استاد موسیقی میاں مشتاق حسین خاں صاحب رام پور والے نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ذیل کی راگنیاں بھی حضرت امیر خسرو کی ایجاد ہیں اور راگ پوتھی سے علاحدہ ہیں۔

    سوہا

    شہانہ

    سگرئی

    ہوا

    سازگیری

    بسنت

    بہار

    سنا ہے کہ درباری بھی حضرت امیر کی ایجاد ہے، سازوں میں ستار اور طبلہ بھی آپ ہی کی ایجادیں ہیں۔

    جتنی رعایتیں اور شرائط موسیقی کے فن میں قابل لحاظ ہیں وہ سب قوالی میں بھی قابل لحاظ ہیں، مثلاً راگنی کے اوقات اور ان کے مزاج کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جیسے شہانہ طربیہ راگنی ہے اس میں قوال کو فراقیہ غزل نہیں گانی چاہیے، ان امور کے علاوہ قوالی کے کچھ اور بھی مخصوص آداب و شرائط ہیں، غالباً ان کا بیان اس موقع پر بے محل نہ ہوگا، سماع اور قوالی چونکہ ایک ایسے گرہ کے معمولات میں سے ہے جو تصنیع اوقات اور فعل عبث کے قائل نہیں ان کا قول ہے۔

    دمے کو غافل ازوے یک زمان است

    ہماں دم کافر است اما نہان است

    اس لئے انہوں نے محفل کے معمولی آداب کے علاوہ کچھ اور بھی آداب مقرر کئے ہیں، یہ آداب معلوم نہیں کب مقرر کئے گئے زمان، مکان، اخوان کی شرطیں حضرت جنید بغدادی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور اس کی تفصیل اس طرح بیان کی گئ ہے۔

    زمان سے مراد یہ ہے کہ محفل ایسے وقت مقرر کی جائے جس میں کوئی دوسرے فرائض یا ضروری کام انجام دینے نہ ہوں، مکان کی شرط اس لئے ہے کہ ایسی جگہ محفل برپا نہ کی جائے جہاں ہر کس و ناکس بار پاسکے، اخوان کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہم مذاق اور ہم اعتقاد آدمیوں کے سوا کوئی اور نہ ہو، ان سب قیدوں اور شرطوں کا مقصد صرف یہ ہے جمیعت خاطر اور مزاق صحبت میں خلل واقع نہ ہو، ظاہر ہے کہ اگر صالحین کی صحبت میں ایک رندِ آزاد منش وارد ہوجائے یا آزادوں کے جلسے میں کوئی مفتی شرح متین تشریف لے آئیں تو جمیعت خاطر اور لطف صحبت رخصت ہو جائے گا، جواہر غیبی میں مصباح الہدایتہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ

    جائے سماع رہ گزر سے محفوظ ہونا چاہیے اس میں تکبر، بیہودا گو اور زاہدان مشق نہاد بد اعتقاد پیر اور مصنوئی حال لانے والے نہ ہونے چاہیے، اہل محفل کو دو زانو خاموش بیٹھنا چاہیے اور دل کو خدا کی طرف متوجہ رکھنا اور عطاؤں فیض کا منتظر رہنا چاہیے

    مصنوئی حال لانے والوں کے ذکر سے ذہن وجد و حال کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، ویسے بھی سماع اور وجد و حال تقریباً لازم ملزوم ہیں، اس بارے میں فلسفیوں اور صوفیوں کے چند اقوال ملاحظہ ہوں، یہ لحاظ رہے کہ وجد و حال کا تعلق محض صوفیوں ہی سے نہیں بلکہ فطرت انسانی اور نفسیات کے مطالعہ کرنے والوں کے لئے بھی یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

    بعض حکما کا قول ہے کہ دل کے اندر ایسی شریف فضیلت ہے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا نفس اس کو الحان سننے کے وقت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ظاہر ہونے سے نفس ناطقہ کو انبساط سرور حاصل ہوتا ہے اور بعض فلاسفہ کا قول ہے کہ فکر جس طرح علم کو معلوم کی طرف کھینچتی ہے اسی طرح نغمہ قلب کو عالم روحانی کی طرف کھینچتا ہے، امام غزالی نے کہا ہے کہ وجد اس حالت کو ہوتے ہیں جو سماع سے پیدا ہوتی ہے وہ وارد جدید ہے حق تعالیٰ کی طرف سے جو سماع کے بعد وارد ہوتا ہے اور سننے والا اس کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے یہ حالت دو طرح کی ہوتی ہے یا مشاہدات و مکاشفات کی طرف راجع ہوتی ہے جواز قبیل علوم و معارف ہیں اور یا تغیرات و احوال کی طرف علوم سے متعلق نہیں بلکہ جیسے شوق، خوف، قلق، سرور، بے خودی، بسط و سکر وغیرہ یہ حالت گانا سننے سے یا تو پیدا ہو جاتی ہے یا زیادہ ہو جاتی ہے اگر ظاہر میں خلاف عادت حرکات ظاہر نہ ہوں تو اسے وجد نہیں کہتے

    (نغمہ و اسلام بحوالہ احیاؤالعلوم)

    مصنوعی حال لانے والوں کے متعلق صاحب نغائم الاشواق نے لکھا ہے کہ

    اگر کسی نے ان باتوں کو اپنا پیشہ بنا لیا ہو اور خود اٹھتا ہو اور خود گرتا ہو تو اس کو نہ سنبھالنا چاہیے اور اگر دیکھیں کہ زور کرتا ہے اور دوسروں کو تکلیف دیتا ہے تو اسے محفل سے نکال دینا چاہیے، وجد میں ایک دوسرے کی تواضع کرنا حالت سماع نہیں ہے بلکہ اس سے خارج ہے، بعض صوفی حال میں ایک دوسرے کے پاؤں پر گرتے ہیں اور ایک دوسرے کا ہاتھ اور دامن پکڑتے ہیں اس لئے کہ اسے بھی بغیر حال کے وجد میں لے آئیں اور اسے ایثار کہتے ہیں، ایثار کجا یہ لوگ وجد میں بھی نہیں ہوتے، ان حرکتوں سے وقت ضائع کرتے ہیں، اگر کوئی حال لانے والا اس طرح دھکا دے کہ دوسروں کو تکلیف پہنچے تو جان چاہیے کہ وہ حال میں نہیں اور نا اہل ہے

    اگلے وقتوں میں جب صوفی عموماً اہل حال و صاحب مقام ہو جاتے تھے تو قوال کے لئے بھی صاحب علم اور صاحب دل ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا کیونکہ گاتے وقت اسے اہل محفل کی کیفیات کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا اور اسی کے مطابق غزلیات و اشعار کا انتخاب کرنا ہوتا تھا، یہ بات سہل نہیں ہے جو خود صاحب علم نہ ہوگا وہ اشعار کا انتخاب کیسے کرے گا اور جو صاحب دل نہ ہوگا وہ دوسروں کی کیفیت قلبی کو کیسے سمجھے گا لیکن اب جب کہ اکثر صوفی ہی حال و مقام سے نابلد اور علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں تو سچے قوال کہاں سے آئیں کونکہ قوال کی تعمیر صوفی ہی کرتے تھے، اب قوالی میں سنیما کی دھنے اور تیسرے درجے کے شاعروں کی غزلیں رواج پاگئیں ہیں اس لئے کہ انہیں پر صوفیوں کو حال آتا ہے اور انہیں پر قوالوں کو پیسے ملتے ہیں، صوفیانہ کلام جو قوالی کے لئے مخصوص تھا اب کون سمجھے قوال سے زیادہ صوفی اور صوفی سے زیادہ قوال جاہل ہیں، عطائیوں نے اس پیشے کو اپنا کرار باب فن کی نظروں سے بھی اسے گرا دیا ہے پھر بھی قوالی کی قبولیت عام سے اسے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

    مشائخ صوفیہ کے تزکروں میں کہیں کسی قوال کا ذکر بھی آ جاتا ہے چناچہ حسن بیدی کا نام حضرت بابا فرید کے قوال کی حثیت سے مشہور ہے، آگرے کے میاں موج بھی اپنے عہد کے نامی قوالوں میں سے تھے، قوال کے علاوہ وہ شاعر بھی تھے، موج دراصل ان کا تخلص ہے نام نہیں، نام معلوم بھی نہیں ممکن ہے قطب الدین خاں باطن نے اپنے تذکرہ شعرا بہار بے خزاں میں ان کا ذکر کیا ہو کیونکہ موج باطن کے ہم عصر بھی ہیں اور استاد بھائی بھی، دونوں میاں نظیر اکبرآبادی کے شاگرد ہیں، میاں موج کا مکان بھی نظیر اکبرآبادی کے محلہ تاج گنج ہی میں تھا، میاں موج ایک مشہور صوفی شاعر حضرت شاہ بیدار کے مرید تھے، شاہ بیدار صاحب شاعری میں حضرت خواجہ میر درد دہلوی کے شاگرد ہیں اور حضرت مولانا فخرالدین صاحب دہلوی کے مرید خلیفہ ہیں، مثنوی تحفہ طبران میں مولانا ابوالحسن صاحب فریدآبادی نے میاں موج کے دہلی جانے اور حضرت مولانا فخر صاحب کو گانا سنانے کا حال لکھا ہے، میاں موج کے اس وقت دو شعر مجھے یاد ہیں۔

    کیا کیا تجلیاں ترے مکھڑے نے پائیاں

    شمس و قمر میں ایسی کہاں روشنائیاں

    کیا وصفِ مرشدان طریقت بیاں کروں

    چھوٹے سے منہ سے کب ہوں بڑوں کی بڑائیاں

    میاں موج کا ایک مخصوص قسم کا ساز تھا جس کا نام سرندہ بتایا جاتا ہے، اس کی شکل سارنگی اور بیلے (وائلن) کے بین بین تھی اور کمانچے سے بجتا تھا، میں نے یہ ساز میاں موج کے پر پوتے میاں اچھن خاں کے پاس دیکھا اور سنا ہے مگر انہیں گانے کے طرح اس کا بجانا بھی نہیں آتا تھا یہاں تک کہ اس کے تار بھی ملے ہوئے نہ تھے اور کھونٹیاں جم کر رہ گئی تھیں، آگرے میں عرس کی محفلیں اچھن خاں کی قوالی ہی سے شروع کی جاتی تھیں، ان سے میاں موج کا نام زندہ تھا، اب کوئی ان کا نام لیوا بھی نہیں رہا، اس زمانے میں دہلی کے عبد الکریم خاں صاحب بڑے نامی اور ٹکسالی قوال سمجھے جاتے تھے، نواب غلام محمد خاں صاحب خیرآبادی کے قوال بخشا نے اپنے زمانے میں بڑا نام پیدا کیا اب یہ سب مرحوم ہوچکے ہیں، خواجہ حسن نظامی صاحب نے بھی اپنے طرز کے کئ قوال بنائے اس میں آگرے کے عظیم خاں بہت مشہور ہیں، خواجہ صاحب نے انہیں پریم راگی کا خطاب دیا تھا، حیدرآباد کے واعظ قوال بھی خواجہ صاحب کے سبب سے مشہور ہوئے مگر وہ قوال کم اور واعظ زیادہ تھے، اب موجودہ دور میں میاں مبارک حسین خاں صاحب خانقاہ نیازیہ بریلی کے قوال اپنی علمی اور فنی واقفیت اور تاثیر کے اعتبار سے بہت مشہور ہیں، ان کے علاوہ مرلی اور بعض دوسرے قوال بھی مشہور ہیں۔

    مضمون کے اعتبار سے بھی قوال کی ایک ترتیب ہے، عموماً قول یا حمد و نعت سے قوالی شروع کی جاتی ہے اور پھر موقع محل اور سننے والوں کے مزاق اور حال کے اعتبار سے منقبت، ہجریہ، وصالیہ اور توحید پر مشتمل کلام گایا جاتا ہے، عرس کی محفلیں آج بھی حضرت امیر خسرو کے رنگ پر ختم کی جاتی ہیں، رنگ کے ابتدائی بول یہ ہیں

    آج رنگ ہے اے ماں رنگ ہے ری

    رحمت ہو امیر خسرو پر اور ان کے مرشدوں اور ان کے استادوں پر جو ہندوستان کو ایک ایسی موسیقی دے گئے جس سے اہل فن اور عوام برابر طرب اندوز ہوئے ہیں جس سے ہمیشہ ہماری محفلیں گرم رہیں گی اور دلوں میں محبت کے شعلے بھڑکتے رہیں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے