سرورق
فہرست
رباعیات
رباعیات مستزاد
قطعات
قطعہ در تہنیت صحت
قطعہ در ہجو خواجہ سرائے
قطعہ در تعریف اسپ وزیر زماں آسف دوراں نواب آصف الدولہ بہادر
تضمین
تضمین مطلع خود با مطلع استاد
مثلت
مخمسات
ہادی علی رفیق علی رہ نما علی
مخمس در منقبت
ہراس روز محشر کیا محمد مصطفی بس ہے
منقبت
زور و ثبات و تاب و تواں مرتضی علی
مخمس در منقبت علی ابن ابی طالب
یا علی شاہ اولیا ہے تو
مخمس در منقبت حضرت علی
مخمس در منقبت
ہے حقیقت سے تو اگر آگہ
قدر کو میری بہت سے برتری
مخمس در منقبت
مخمس در منقبت
عقل ہے تو مرا کہا کر تو
در منقبت
اے نائب مصاحب ذی القوۃ المتین
پارسا ہیں جو جواں پیر ہدیٰ کہتے ہیں
در منقبت
مخمس دیگر
اے مرتفع نشین علی العرش استوا
مخمس
یہ بات جھوٹ نہیں صدق کی صفا کی قسم
کیا کہوں مجھ پہ جو گزرے ہے جفا کاری دل
تضمین و مخمس دیگر
بے خودانہ ہیں کئی حرف زباں پر کر گوش
مخمس دیگر
مخمس دیگر بر غزل خود
واں ان نے دل کیا ہے مانند سنگ خارا
سنو یارو بلاس رائے کا حال
مخمس
جس کسو کو خدا کرے گم راہ
مخمس دیگر در ہجو لشکر
مخمس در حال لشکر
مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش
دستخطی فرد کا سنو احوال
مخمس دیگر
قابل ہے میری سیر کے اطوار روزگار
مخمس در شہر کاما حسب حال خود
مسدسات
جرم کی کھو شرم گینی یا رسول
مسدس در نعت سرور کائنات صلعم
چیدہ خواروں میں شہ روم ترے صبح و شام
مسدس در منقبت
مسدس در منقبت
درویش جو ہیں مقصد دل خواہ کہیں ہیں
مسدس در منقبت
جاتی ہے شب تارے گنتے دن کو پھرتا ہوں خراب
طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے
واسوخت
سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو
مسدس دیگر
یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی
مسدس بطرز واسوخت
ایک دن وے تجھے کہ تم کو نہ قریب آتے تھے
مسدس بہ طرز واسوخت
میری تو بساط چشم تر ہے
ترکیب بند
ترکیب بند دیگر
عمر گزری ہو چکا آسودگی کا روزگار
ہفت بند
السلام اے رازدار داور جان آفریں
بند اول
اے مرے سرمایۂ دنیا و عقبیٰ لطف کر
بند دوم
بند سوم
اے شہ خوبی نسب والا حسب عالی تبار
بند چہارم
کیا گدا کیا شاہ دونوں تیرے در سے کامیاب
اے بسان کعبہ تیرے طوف میں روحانیاں
بند پنجم
اے چراغ جملہ نور خاندان مصطفیٰ
بند ششم
بند ہفتم
اے امام واجب التعظیم و باب احترام
ترجیع بند در منقبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ
قابل سجدہ ہے علی کا در
قصائد در منقبت وغیرہ
قصائد در منقبت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
جب سے خورشید ہوا ہے چمن افروز حمل
نکلے ہے لالہ زبس چاک کر اب سینۂ تل
مطلع ثانی
اے کہ اک تو ہی ہوا عالم اسرار ازل
مطلع ثالث
اے کہ طاقت ہے زمانے میں تری ضرب مثل
مطلع رابع
قطعہ
کیا لکھوں اسپ سبک سیر کی اس کے تعریف
اک شب کیا تھا یار تری زلف کا خیال
قصیدہ در مدح حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ
مطلع ثانی
اے نائب مصاحب دادار بے ہمال
قطعہ
بالفرض اس پہ چوٹ کرے آکے مدعی
قطعہ
من بعد اور باقی رہیں جتنے کشتنی
قصیدہ در مدح حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ
غنچے ہو دل پر آتے ہیں اندوہ اب مدام
شاہا ترے گدا کا ہے مشہور احتشام
مطلع ثانی
قطعہ
شمشیر اس کی خرمن اعدا کی ہے جو برق
اے بعد فوت ختم رسل صاحب اہتمام
مطلع ثالث
فلک کے جور و جفا نے کیا ہے مجھ کو شکار
قصیدہ در مدح حضرت امام حسین علیہ السلام
جو پہنچے قیامت تو آہ و فغاں ہے
قصیدہ مدحیہ شاہ وقت
ترے ہاتھ جب تک کہ تیر وکماں
مطلع ثانی
مطلع ثالث
قلم چل ابھی تیری چلتی زباں ہے
ترا ہاتھ پڑ جائے گر رستم اوپر
قطعہ
مطلع رابع
ترے زور بازو کی طاقت عیاں ہے
قصیدہ در مدح آصف الدولہ بہادر
رات کو مطلق نہ تھی یاں جی کو تاب
اے ترے ڈر سے جگر شیروں کے آب
مطلع ثانی
ہوا کیے ہیں زبس شکوۂ فلک تحریر
قصیدہ در مدح نواب آصف الدولہ بہادر
ہماری یار سے صحبت ہو کس طرح در گیر
مطلع ثانی
خلل پذیر ہوا ہے دماغ خامۂ میر
مطلع ثالث
قصیدہ در شکایت نفاق یاران زماں
جہاں میں کون ہے جس کو کسی سے الفت ہے
مطلع ثانی
منھوں پہ صاف ہیں لیکن نہ حفظ غیبت ہے
بہ ذوالفقار کہ وقت نبرد غازی کے
قطعہ
مطلع ثالث
بہ زلف یار کہ مجھ پر اسی سے شامت ہے
مراثی
تمامی حجت کی خاطر امام
محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال
تحیات اے عزیزاں ! بابت آل پیمبر ہے
خاک تیرے فرق پر اے بے مروت آسماں
فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
امت تھی نبی کی کہ یہ کفار حسینا
گردوں نے کس بلا کو یہ کر دیا اشارا
آیا محرم غم میں رہا کر
ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی
سنو یہ قصۂ جاں کا کر بلاے حسین
دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسین
نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا
وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن
سجاد کو فلک نے کس کس طرح ستایا
ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیا
چاروں طرف ہے شور و فغاں وا مصیبتا
قاسم کی شادی اس دن رچائی
نسیم غم سے ہے آتش بہ جاں امام حسین
کہانی رات تھی آل نبی کی
کیا گردن نے فتنے کو اشارا
نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
ابن علی سے سنا ہے یارو دشت بلا میں لڑائی ہوئی
آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی
چہلم ہے اے محباں ! اس شاہ دوسرا کا
اس گل باغ امامت کے ہیں پھول
ترکیب بند مثمن
پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جھاں ہے سیہ تمام
بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار
حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا
حسن ابن علی عالی نسب تھا
جہاں ہم کو اسیروں کا کوا ہے
دکھ سے تیرے کلام یا امام یا حسین
الوداع اے افتخار نوع انساں الوداع
کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینا
اے شہ عالی مقام تجھ پہ درود و سلام
سلام
اے بدخشان نبی کے لعل احمر السلام
اے گل خوش رنگ گلزار شہادت السلام
ساقی کوثر کے پیارے السلام
اے شہ اقلیم شوکت السلام
السلام اے کام جان مصطفیٰ
YEAR1982
YEAR1982
سرورق
فہرست
رباعیات
رباعیات مستزاد
قطعات
قطعہ در تہنیت صحت
قطعہ در ہجو خواجہ سرائے
قطعہ در تعریف اسپ وزیر زماں آسف دوراں نواب آصف الدولہ بہادر
تضمین
تضمین مطلع خود با مطلع استاد
مثلت
مخمسات
ہادی علی رفیق علی رہ نما علی
مخمس در منقبت
ہراس روز محشر کیا محمد مصطفی بس ہے
منقبت
زور و ثبات و تاب و تواں مرتضی علی
مخمس در منقبت علی ابن ابی طالب
یا علی شاہ اولیا ہے تو
مخمس در منقبت حضرت علی
مخمس در منقبت
ہے حقیقت سے تو اگر آگہ
قدر کو میری بہت سے برتری
مخمس در منقبت
مخمس در منقبت
عقل ہے تو مرا کہا کر تو
در منقبت
اے نائب مصاحب ذی القوۃ المتین
پارسا ہیں جو جواں پیر ہدیٰ کہتے ہیں
در منقبت
مخمس دیگر
اے مرتفع نشین علی العرش استوا
مخمس
یہ بات جھوٹ نہیں صدق کی صفا کی قسم
کیا کہوں مجھ پہ جو گزرے ہے جفا کاری دل
تضمین و مخمس دیگر
بے خودانہ ہیں کئی حرف زباں پر کر گوش
مخمس دیگر
مخمس دیگر بر غزل خود
واں ان نے دل کیا ہے مانند سنگ خارا
سنو یارو بلاس رائے کا حال
مخمس
جس کسو کو خدا کرے گم راہ
مخمس دیگر در ہجو لشکر
مخمس در حال لشکر
مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش
دستخطی فرد کا سنو احوال
مخمس دیگر
قابل ہے میری سیر کے اطوار روزگار
مخمس در شہر کاما حسب حال خود
مسدسات
جرم کی کھو شرم گینی یا رسول
مسدس در نعت سرور کائنات صلعم
چیدہ خواروں میں شہ روم ترے صبح و شام
مسدس در منقبت
مسدس در منقبت
درویش جو ہیں مقصد دل خواہ کہیں ہیں
مسدس در منقبت
جاتی ہے شب تارے گنتے دن کو پھرتا ہوں خراب
طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے
واسوخت
سچ کہو شہر میں صحرا میں کہاں رہتے ہو
مسدس دیگر
یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی
مسدس بطرز واسوخت
ایک دن وے تجھے کہ تم کو نہ قریب آتے تھے
مسدس بہ طرز واسوخت
میری تو بساط چشم تر ہے
ترکیب بند
ترکیب بند دیگر
عمر گزری ہو چکا آسودگی کا روزگار
ہفت بند
السلام اے رازدار داور جان آفریں
بند اول
اے مرے سرمایۂ دنیا و عقبیٰ لطف کر
بند دوم
بند سوم
اے شہ خوبی نسب والا حسب عالی تبار
بند چہارم
کیا گدا کیا شاہ دونوں تیرے در سے کامیاب
اے بسان کعبہ تیرے طوف میں روحانیاں
بند پنجم
اے چراغ جملہ نور خاندان مصطفیٰ
بند ششم
بند ہفتم
اے امام واجب التعظیم و باب احترام
ترجیع بند در منقبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ
قابل سجدہ ہے علی کا در
قصائد در منقبت وغیرہ
قصائد در منقبت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ
جب سے خورشید ہوا ہے چمن افروز حمل
نکلے ہے لالہ زبس چاک کر اب سینۂ تل
مطلع ثانی
اے کہ اک تو ہی ہوا عالم اسرار ازل
مطلع ثالث
اے کہ طاقت ہے زمانے میں تری ضرب مثل
مطلع رابع
قطعہ
کیا لکھوں اسپ سبک سیر کی اس کے تعریف
اک شب کیا تھا یار تری زلف کا خیال
قصیدہ در مدح حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ
مطلع ثانی
اے نائب مصاحب دادار بے ہمال
قطعہ
بالفرض اس پہ چوٹ کرے آکے مدعی
قطعہ
من بعد اور باقی رہیں جتنے کشتنی
قصیدہ در مدح حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ
غنچے ہو دل پر آتے ہیں اندوہ اب مدام
شاہا ترے گدا کا ہے مشہور احتشام
مطلع ثانی
قطعہ
شمشیر اس کی خرمن اعدا کی ہے جو برق
اے بعد فوت ختم رسل صاحب اہتمام
مطلع ثالث
فلک کے جور و جفا نے کیا ہے مجھ کو شکار
قصیدہ در مدح حضرت امام حسین علیہ السلام
جو پہنچے قیامت تو آہ و فغاں ہے
قصیدہ مدحیہ شاہ وقت
ترے ہاتھ جب تک کہ تیر وکماں
مطلع ثانی
مطلع ثالث
قلم چل ابھی تیری چلتی زباں ہے
ترا ہاتھ پڑ جائے گر رستم اوپر
قطعہ
مطلع رابع
ترے زور بازو کی طاقت عیاں ہے
قصیدہ در مدح آصف الدولہ بہادر
رات کو مطلق نہ تھی یاں جی کو تاب
اے ترے ڈر سے جگر شیروں کے آب
مطلع ثانی
ہوا کیے ہیں زبس شکوۂ فلک تحریر
قصیدہ در مدح نواب آصف الدولہ بہادر
ہماری یار سے صحبت ہو کس طرح در گیر
مطلع ثانی
خلل پذیر ہوا ہے دماغ خامۂ میر
مطلع ثالث
قصیدہ در شکایت نفاق یاران زماں
جہاں میں کون ہے جس کو کسی سے الفت ہے
مطلع ثانی
منھوں پہ صاف ہیں لیکن نہ حفظ غیبت ہے
بہ ذوالفقار کہ وقت نبرد غازی کے
قطعہ
مطلع ثالث
بہ زلف یار کہ مجھ پر اسی سے شامت ہے
مراثی
تمامی حجت کی خاطر امام
محرم کا نکلا ہے پھر کر ہلال
تحیات اے عزیزاں ! بابت آل پیمبر ہے
خاک تیرے فرق پر اے بے مروت آسماں
فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
امت تھی نبی کی کہ یہ کفار حسینا
گردوں نے کس بلا کو یہ کر دیا اشارا
آیا محرم غم میں رہا کر
ایمان یہ کیسا تھا کیسی یہ مسلمانی
سنو یہ قصۂ جاں کا کر بلاے حسین
دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسین
نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا
وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن
سجاد کو فلک نے کس کس طرح ستایا
ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیا
چاروں طرف ہے شور و فغاں وا مصیبتا
قاسم کی شادی اس دن رچائی
نسیم غم سے ہے آتش بہ جاں امام حسین
کہانی رات تھی آل نبی کی
کیا گردن نے فتنے کو اشارا
نہ چھوڑی دشمنوں نے گھر میں شے دوست
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
ابن علی سے سنا ہے یارو دشت بلا میں لڑائی ہوئی
آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی
چہلم ہے اے محباں ! اس شاہ دوسرا کا
اس گل باغ امامت کے ہیں پھول
ترکیب بند مثمن
پھر کیا یہ دھوم ہے کہ جھاں ہے سیہ تمام
بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار
حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا
حسن ابن علی عالی نسب تھا
جہاں ہم کو اسیروں کا کوا ہے
دکھ سے تیرے کلام یا امام یا حسین
الوداع اے افتخار نوع انساں الوداع
کیا نحس تھا دن روز سفر ہائے حسینا
اے شہ عالی مقام تجھ پہ درود و سلام
سلام
اے بدخشان نبی کے لعل احمر السلام
اے گل خوش رنگ گلزار شہادت السلام
ساقی کوثر کے پیارے السلام
اے شہ اقلیم شوکت السلام
السلام اے کام جان مصطفیٰ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔