کہو بالیں سے اٹھ جائے طبیب دشمنِ جاں کو
کہو بالیں سے اٹھ جائے طبیب دشمنِ جاں کو
وصالِ یار کافی ہے ہمارے دردِ ہجراں کو
نکالوں کھینچ کر دل سے اگر میں آہ سوزاں کو
جلا کر خاک کر ڈالے ابھی گردون گرداں کو
نثاروں اپنے یوسف کے قدم پر مصر کنعاں کو
بلخ کو شام کو چیں کو ختن کو ہند وایراں کو
تمہاری چشم سے نسبت ہے کیا چشم غزالاں کو
لبِ رنگیں نے شرمندہ کیا لعلِ بدخشاں کو
بند ھے کس طور سے مضموں کمر ہم ناتوانوں سے
پتا لگتا نہیں اب تک کہیں خضر بیاباں کو
تمہاری مصحف رخ پر گماں ہے خال مشکیں کا
ولیکن طفل زنگی نے کیا ہے حفظ قرآں کو
کیے ہیں قتل عاشق اس قدر شمشیر قاتل نے
کہ شہروں کو کیا ویراں بسایا دشت ویراں کو
ترے اس دام کا کل نے پہنا کر دل بت کافر
دیا دیندار کافر کو بنا کافر مسلماں کو
ہمارے لے لیا دل کو دکھا کر او بت کافر
ادا کو ناز کو انداز کو زلفِ پریشاں کو
کیا ہے چاک کس کس کو ہمارےجوش وحشت کے
قبا کو آستیں کو جیب کو دامن گریباں کو
اسیرِ دام ہوتے ہیں بھلا دیکھیں تو کتنے دل
کہ پھیلائے ہیں اس ظالم نے اپنی زلف پیچاں کو
کہا اک دن یہ میں نے ان سے دے دو گے اگر بوسہ
تعجب کیا کہ پڑتا کام ہے انساں سے انساں کو
تو کہتے ہیں وہ کیا ہنس کر مخاطب ہو رقیبوں سے
ہمیں دیکھو اسے دیکھو ذرا اس شان یزداں کو
وفا کیونکر کرے وعدہ کہ اس سرو قامت کو
وفا کرنا نہیں آیا ہے اے دل عہد و پیماں کو
لیے ہمراہ غیروں کو لگا کر رشک کی آتش
جلانے قبر پر آیا بت کافر مسلماں کو
غرض تھی پان کھا نے سے نہ مطلب سرخ دنداں سے
رحیمؔ شرمندہ کرنا تھا اسے لعل بدخشاں کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.