وہ سوز ہی باقی نہ رہا قلب و جگر میں
وہ سوز ہی باقی نہ رہا قلب و جگر میں
کس طرح دعا ڈوب کے پھر نکلے اثر میں
مل جائیں گی منزل مجھے نقشِ کفِ پا سے
یہ سوچ کے آباد ہوں تری راہ گزر میں
کس طرح سے طے ہوگی مری منزل آخر
کچھ بھی تو نہیں پاس مرے زادِ سفر میں
بیخود ہوا جس نے بھی نظر مجھ سے ملائی
کیا بات ہے ساقی تری مخمور نظر میں
بڑھ کر مہ وانجم سے بھی چمکے وہی آنسو
جو دل سے اُمنڈ آئے مرے دیدۂ تر میں
وہ ظلم بھی کرتے ہیں تو ہے مصلحت اُن کی
اور میری محبت ہے فریب اُن کی نظر میں
ہر خاک کے ذرہ میں نہاں اُس کا ہے جلوہ
پھر بھی نہ نظر آئے تو خامی ہے نظر میں
اٹھ جائیں حجاباتِ دوئی جس کی نظر سے
یکساں حرم ودیر ہیں پھر اس کی نظر میں
وہ عرضِ تمنا پہ تو برہم ہوئے اکثر
ہم ان کو بسائے ہی رہے قلب وجگر میں
وہ میری وفا پر تو ہیں مشکوک بہت کچھ
لیکن ستم اپنے نہیں کچھ اُن کی نظر میں
کیوں کر نہ چلیں شیخِ حرم یاں با سرو چشم
کرتے ہیں ملک سجدہ تری راہ گزر میں
کم مائیگی حشر کا احسان ہے جن کو
وہ دولتِ دنیا کو نہیں لائے نظر میں
ہے شرط عقیدے کی رہِ عشق میں اخترؔ
کعبہ میں ہے کچھ اور نہ بت خانہ کے در میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.