Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

وہ سوز ہی باقی نہ رہا قلب و جگر میں

اختر محمود وارثی

وہ سوز ہی باقی نہ رہا قلب و جگر میں

اختر محمود وارثی

وہ سوز ہی باقی نہ رہا قلب و جگر میں

کس طرح دعا ڈوب کے پھر نکلے اثر میں

مل جائیں گی منزل مجھے نقشِ کفِ پا سے

یہ سوچ کے آباد ہوں تری راہ گزر میں

کس طرح سے طے ہوگی مری منزل آخر

کچھ بھی تو نہیں پاس مرے زادِ سفر میں

بیخود ہوا جس نے بھی نظر مجھ سے ملائی

کیا بات ہے ساقی تری مخمور نظر میں

بڑھ کر مہ وانجم سے بھی چمکے وہی آنسو

جو دل سے اُمنڈ آئے مرے دیدۂ تر میں

وہ ظلم بھی کرتے ہیں تو ہے مصلحت اُن کی

اور میری محبت ہے فریب اُن کی نظر میں

ہر خاک کے ذرہ میں نہاں اُس کا ہے جلوہ

پھر بھی نہ نظر آئے تو خامی ہے نظر میں

اٹھ جائیں حجاباتِ دوئی جس کی نظر سے

یکساں حرم ودیر ہیں پھر اس کی نظر میں

وہ عرضِ تمنا پہ تو برہم ہوئے اکثر

ہم ان کو بسائے ہی رہے قلب وجگر میں

وہ میری وفا پر تو ہیں مشکوک بہت کچھ

لیکن ستم اپنے نہیں کچھ اُن کی نظر میں

کیوں کر نہ چلیں شیخِ حرم یاں با سرو چشم

کرتے ہیں ملک سجدہ تری راہ گزر میں

کم مائیگی حشر کا احسان ہے جن کو

وہ دولتِ دنیا کو نہیں لائے نظر میں

ہے شرط عقیدے کی رہِ عشق میں اخترؔ

کعبہ میں ہے کچھ اور نہ بت خانہ کے در میں

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے