دل ان کا دل میں درد ان کا پھر درد کا درماں کیوں کیجیے
دل ان کا دل میں درد ان کا پھر درد کا درماں کیوں کیجیے
علی حسین آبادؔ
MORE BYعلی حسین آبادؔ
دل ان کا دل میں درد ان کا پھر درد کا درماں کیوں کیجیے
یہ رازِ محبت راز رہے اشکوں سے نمایاں کیوں کیجیے
گھر اپنے بلا کر مہماں کو محبوب و پشماں کیوں کیجیے
جب دل میں نہیں اک قطرۂ خوں پھر دعوت پیکاں کیوں کیجیے
تکلیف نشیمن زیرِ فلک پھر بلبلِ نالاں کیوں کیجیے
ہر برق کو دعوت کیوں دیجیے ہر شاخ کو لرزاں کیوں کیجیے
ہے طور وہی جلوے بھی وہی، اے طالبِ جلوہ ہوش میں آ
جب دادئی ایمن دل ہی نہں جلوؤں کو پریشاں کیوں کیجیے
رہبر بھی وہی، منزل بھی وہی، کشتی بھی وہی، ساحل بھی وہی
پھر بحرِ جہاں میں فکرِ تلاطم یا غمِ طوفاں کیوں کیجیے
فیضانِ تصور کہیے اسے مہجور کبھی مہجور نہیں
ہے شکل جب اُن کی پیشِ نظر پھر شکوۂ ہجراں کیوں کیجیے
اس گل کی بزم افروزی ہر امہ پہ نچھاور ہونے کو
جب تارے فلک سے ٹوٹ پڑیں آباد چراغاں کیوں کیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.