Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

میرے غم کی تلخیاں پیغامبر سمجھا نہیں

بہزاد لکھنوی

میرے غم کی تلخیاں پیغامبر سمجھا نہیں

بہزاد لکھنوی

میرے غم کی تلخیاں پیغامبر سمجھا نہیں

ان سے جو کہنا تھا کہہ آیا مگر سمجھا نہیں

اک فسوں سا چھا گیا کون و مکاں میں ہر طرف

میرے سحر عشق کو جادو نظر سمجھا نہیں

آ رہی تھی میرے قدموں کی صدائے درد ناک

کون آتا ہے چراغِ رہ گذر سمجھا نہیں

کہہ دیا کل راز میخانہ کا ساقی نے مگر

بے خبر سمجھے تو سمجھے با خبر سمجھا نہیں

ظلمتوں سے شبکی میں نے کھیل کر شب کاٹ دی

ہر تجلی کو کبھی میں نے سحر سمجھا نہیں

میں تو سمجھا تھا یوں ہی آنکھوں میں آنسو آ گئے

میں نے اس کو اپنی آہوں کا اثر سمجھا نہیں

اب تو یہ بتلا رہا ہے ان کا اندازِ حجاب

ان کا جلوہ مجھ کو بیتاب نظر سمجھا نہیں

پا سکا عالم نہ میری خوش نوائی کا مزا

دیدہ ور کے پاس میں تھا دیدہ ور سمجھا نہیں

کس لیے آخر بھٹکتی اپنی چشم اشتیاق

ہر جگہ وہ ہیں یہی ذوقِ نظر سمجھا نہیں

اس کے پائے ناز کو ہے میرے سجدوں کی تلاش

ہوش ہے کب تھے مجھے اس کی نظر سمجھا نہیں

کوئی ہے آواز دے دے میرے چشمِ شوق کو

جلوہ کی کیا آرزو ہے جلوہ گر سمجھا نہیں

زلف و رخ سے ماورا بہزادؔ ہے میرا خیال

میرا عالم صاحبِ شام و سحر سمجھا نہیں

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے