ہے وہی شب ہیں شب ہیں وہی تارے وہی ہنگام ہے
میرے بجھ جانے سے کیوں تنہا چراغ شام ہے
زندگی خوش کام ہے یا زندگی ناکام ہے
ایک ہی عالم ہیں دونوں ایک ہی انجام ہے
پاس میرے کیا ہے اک دل اک جگر اک چشم تر
ایک دیوانہ ہے اک وحشی ہے اک ناکام ہے
میں دعائے صبح کیوں مانگوں شب الام و ہجر
صبح کا عالم حقیقت میں فریب شارم ہے
ہو رہے ہیں ذرے ذرے سے عیاں وہ چار سو
اللہ اللہ آج پھر اذنِ تماشا عام ہے
اب ہمیں ہم رہ گئے ہیں اس جہانِ شوق میں
اب نہ وہ عالم نہ وہ نظریں نہ وہ پیغام ہے
جھک گئی ہے ان کے قدموں پر جبینِ آرزو
کفر کہتے ہیں جسے شاید اسی کا نام ہے
دورئی منزل کو اکثر خود بڑھا لیتا ہوں میں
ورنہ منزل پر پہنچ جانا بھی کوئی کام ہے
میرے ساقی نے پلائی مجھ کو اس انداز سے
میکدے والے یہی سمجھے کہ خالی جام ہے
سننے والے سن رہے ہیں کہنے والا کیوں کہے
زندگی افسانۂ شام و سحر کا نام ہے
شکر کے عالم میں بھی اکثر نکل جاتی ہے آہ
مجھ پہ اے بہزادؔ شکوے کا عبث الزام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.