حیات ہے تو مگر وہ حیات کیوں نہ رہی
وہ کیف زیست وہ عالم وہ بات کیوں نہ رہی
تڑپ رہا ہوں ہزاروں غموں کے سائے میں
وہ چشم حاملِ صد التفات کیوں نہ رہی
وہ رات جس کو محبت کی رات کہتے ہیں
مرے جہاں میں وہی ایک رات کیوں نہ رہی
دل خراب کو مایوسیوں نے لوٹ لیا
وہ حسرتِ کر واقعات کیوں نہ رہی
شروع عشق و محبت کا دور ارے توبہ
وہی جہان وہی کائنات کیوں نہ رہی
بتا بتا میری کشتی کے نا خدا یہ بتا
سکوں کی لہر پسِ واقعات کیوں نہ رہی
ہزار چاند بھی تاباں ہے اور ستارے بھی
مگر میں سوچ رہا ہوں کہ رات کیوں نہ رہی
یہ گم ہے اب کہ غمِ عشق دل سے دور ہوا
سحر کے بھیس میں شام نجات کیوں نہ رہی
بڑھانہ دامنِ رنگین دوست اے بہزادؔ
ہزار حیف ان اشکوں کی بات کیوں نہ رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.