کوئی بصد غرور و ناز جلوہ نما ہوا تو کیا
چشمِ مراد مند کو مل گیا مدعا تو کیا
میرے نیازِ شوق کی میرے گداز عشق کی
کچھ نہیں ابتدا تو کیا کچھ نہیں انتہا تو کیا
میرا فسانۂ الم عرض سے بے نیاز ہے
میں نے نہیں کہا تو کیا تو نے نہیں سنا تو کیا
ساقیٔ گلعذار کی مست نگاہ یاد ہے!
بے پئے ہم تو مست ہیں آ گیا میکدہ تو کیا
میری نگاہِ عشق کی تاب نہ لا سکا کوئی
ہائے ہجوم بیکسی یہ بھی جو ہو گیا تو کیا
رہروِ و راہِ شوق کو راہ روی سے کام ہے
بھول گیا تو کیا ہوا مل گیا راستہ تو کیا
لرزہ کناں ہے کائنات گم ہے حیات اور ممات
اپنا ہی جب پتہ نہیں تیرا پتہ ملا تو کیا
کفر بھی تم ہو دیں بھی تم، عرش بھی تم زمیں بھی تم
تم نے ہی جب بھلا دیا بھول گیا خدا تو کیا
میری مراد کچھ نہیں بھولا ہوں یاد کچھ نہیں
میری مراد قلب کو تم نے سمجھ لیا تو کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.