حسن کی ضد سے غموں کو جاوداں کرنا پڑا
اپنے عالم کو بہارِ بے خزاں کرنا پڑا
میکدے میں احترامِ میکشاں کرنا پڑا
دل جہاں جھوما تھا اک سجدہ وہاں کرنا پڑا
تیری خاطر یہ نگاہِ دلستاں کرنا پڑا
خار غنچوں کو بہاروں کو خزاں کرنا پڑا
اپنی حد سے بڑھ چلا جب کچھ نیازِ بندگی
ایک سجدہ بے قیام آستاں کرنا پڑا
ان کا اندازِ تخاطب کے تصدق جائیے
اپنے اشکوں کو بھی زیبِ داستاں کرنا پڑا
جب گل و بلبل میں کچھ تھوڑی سی چشمک ہو چلی
پتہ پتہ کو چمن کے ہم زباں کرنا پڑا
میری خاموشی کو جب طرزِ کلام آنے لگا
ان کی محفل میں زباں کو بے زباں کرنا پڑا
فصل گل میں یہ خیال آتا ہے اکثر بار بار
اپنے ہی دامن کو خود کیوں دھجیاں کرنا پڑا
عشق کا اعجاز اے بہزادؔ مضطر کیا کہوں
بیشتر مجھ کو زمیں کا آسماں کرنا پڑا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.