ترے پاس تک نہ پہنچا وہ کوئی بھی چال چل کر
جو چلا بہک بہک کر جو چلا سنبھل سنبھل کر
جہاں اشکِ نا مرادی سرِ چشم شوق آیا
مرے غم کو داد دے دی مری حسرتوں نے جل کر
مری ایک بیخودی میں ہیں ہزار ہوش پنہاں
ترے پاس آرہا ہوں رخِ زندگی بدل کر
لیا دستِ باغباں نے نیا امتحاں چمن کا
کبھی یہ کلی مسل کر کبھی وہ کلی مسل کر
یہ ہے کفر یا کہ ایماں یہ ہے جہل یا کہ عرفان
تیری ذات آگئی ہے مری بندگی میں ڈھل کر
نہ تو کام آئے رہبر نہ تو راستے نہ منظر
وہیں میں نے کھائی ٹھوکر میں جہاں چلا سنبھل کر
نہ تو وصل میں ہوں رقصاں نہ فراق میں ہوں گریاں
مجھے کیا بنا دیا ہے مری زندگی بدل کر
اسی آرزو میں برسوں کبھی میں نے دن گذارے
کبھی مل گئی ہے منزل مجھے اک قدم ہی چل کر
جسے ہجر کی طلب نے سدا نا مراد رکھا
مرے لب پہ آ رہی ہے وہ دعا مچل مچل کر
ترا غم رہے سلامت شبِ ہجر کاٹ لی ہے
کبھی آہ سرد بھر کر کبھی کروٹیں بدل کر
ارے جوش نامرادی ارے جذب نا امیدی
تجھے کیا ملے گا ظالم میری حسرتیں کچل کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.