Sufinama

ہمیں کیا غم قیامت میں جو پرسش ہونے والی ہے

داغ دہلوی

ہمیں کیا غم قیامت میں جو پرسش ہونے والی ہے

داغ دہلوی

MORE BYداغ دہلوی

    ہمیں کیا غم قیامت میں جو پرسش ہونے والی ہے

    کہ جب وہ فتنہ گر آیا تو پھر میدان خالی ہے

    کدورت دل کی جو فریاد کرنے سے نکالی ہے

    وہ کہتے ہیں محبت پر ہماری خاک ڈالی ہے

    ابھی ہیں بھولی بھولی باتیں ان کی خوردسالی ہے

    مگر چتون یہ کہتی ہے قیامت ہونے والی ہے

    ہماری توبہ زاہد کی جوانی دونوں بیکس ہیں

    نہ کوئی اس کا وارث ہے نہ کوئی اس کا والی ہے

    الٰہی کیوں غم فرقت فلک مجھ کو دکھلاتا ہے

    کہ میں نے ہجر جاناں میں قسم کھانے کی کھا لی ہے

    دعائیں دے رہا ہوں زیر مرقد اپنے قاتل کو

    خدا رکھے اسے جس نے مری حسرت نکالی ہے

    ملے تو نے کف افسوس پہروں مرگ دشمن پر

    یہ سرخی اس کے ہے ہاتھوں میں یا مہندی کی لالی ہے

    شباب ایسا جو ہو اس سے بہار گل کو کیا نسبت

    تری چڑھتی جوانی ہے اور اس کی ڈھلنے والی ہے

    بیاں کی ہے وفائی جب زمانے کی تو وہ بولے

    اجی ہم خوب سمجھے صاف تم نے ہم پہ ڈالی ہے

    دل مضطر کو تھامے پھر رہا ہوں میں شب فرقت

    نہ میرے پاؤں خالی ہیں نہ میرا ہاتھ خالی ہے

    مجھے گھر کاٹے کھاتا ہے تو بستر پھاڑے کھاتا ہے

    شب فرقت میں کیا شیر نیستاں شیر قالی ہے

    ہوا ہے چار سجدوں پر یہ زاہدو تم کو

    خدا نے کیا تمہارے ہاتھ جنت بیچ ڈالی ہے

    اٹھا لیں لطف کوئی دن یہاں پھر ہم کہاں پھر تم

    برا وقت آنے والا ہے جدائی ہونے والی ہے

    کہاں قسمت کہاں ہمت کہاں طاقت کہ میں پہنچوں

    کہ منزل عشق کی کچھ عرش اعلیٰ سے بھی عالی ہے

    بھری ہیں حسرتیں ہی حسرتیں اس خانۂ دل میں

    مگر دیکھو تو یہ پھر گھر کا گھر خالی کا خالی ہے

    یہ چالیں آسماں کی کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتیں

    کسی کی سرفرازی ہے کسی کی پائمالی ہے

    لب معجز نما سے گالیاں دیتی ہیں جو ہنس کر

    مری تصویر میں بھی تم نے گویا جان ڈالی ہے

    کبھی ہے اس کی چوکھٹ پر کبھی ہے اس کے قدموں پر

    ازل سے میری پیشانی بڑی تقدیر والی ہے

    کیا جانے کہا کیا او ستم گر راہ چلتوں نے

    خفا کیوں ہو کوئی بازار کی گالی بھی گالی ہے

    تری محفل میں تیرے داغ کو ہم نے نہیں دیکھا

    بھری ہیں غیر آ آ کر جگہ اس کی ہی خالی ہے

    وہ لکھیں گے تجھے خط کا جواب اے داغؔ کیا کہنا

    یہ تو نے خواب دیکھا ہے کہ مضمون خیالی ہے

    مأخذ :
    • کتاب : Guldasta-e-Qawwali (Pg. 15)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے