اک دل کی لگی ہے جو بجھائی نہیں جاتی
اک دل کی لگی ہے جو بجھائی نہیں جاتی
اک عشق کی بازی ہے جو ہاری نہیں جاتی
کس طرح گزاروں گا میں اک عمر گریزاں
اک رات تو اب مجھ سے گزاری نہیں جاتی
جس راہ کو تکتا تھا بڑے شوق سے دن بھر
اس راہ پہ اب میری نگہ بھی نہیں جاتی
تھا رند کا یہ حال کہ میخانہ بھی کم تھا
اب بوند حلق سے بھی اتاری نہیں جاتی
تم کیسے جہاں بھر کے خزانوں پہ ہو قابض
ہم سے تو یہ غربت بھی سنبھالی نہیں جاتی
اک وقت تھا جب اپنی حکومت تھی جہاں میں
محکومی کی یہ شب تو گزاری نہیں جاتی
تھا عشق کسی دور میں انمول اثاثہ
اب تو وہ مصیبت ہے جو پالی نہیں جاتی
شایانؔ ترے سامنے کانٹوں کا سفر ہے
چلنے کی مگر عادتِ غازی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.