عشق سرمستی شوریدہ سری بھول گیا
عشق سرمستی شوریدہ سری بھول گیا
یا بشر راز عروج بشری بھول گیا
شل ہوا دست جنوں پردہ دری بھول گیا
دیدہ در زعم وسیع النظری بھول گیا
یہ بھی اعجاز قفس ہے کہ اسیر تازہ
خود بخود صدمہ بے بال و پری بھول گیا
غم کا بیمار ذرا دیر کی راحت کے لیے
کیف افزائی در و جگری بھول گیا
خود فریبی کی ہواؤں نے کیا ایسا خراب
گل بھی احسان نسیم سحری بھول گیا
چھین لی تاب بیاں دل سے عطائے غم نے
راز داں بنتے ہی افسانہ گری بھول گیا
حسنِ ظاہر کی تجلی میں گئی ڈوب نظر
دیدہ فکر حقیقت نگری بھول گیا
اپنی آہوں کو عطا کرنا اثر کی طاقت
خود گرفتار غم بے اثری بھول گیا
اثر صدمۂ فرقت کو نہ اب ڈھونڈھ نیازؔ
صاحبِ غم ہی وہ حرماں نظری بھول گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.