دل میں ہے خیال آج کسی رشک پری کا
دل میں ہے خیال آج کسی رشک پری کا
پوچھو نہ مزاج اب مری شوریدہ سری کا
اے شمع شبِ غم میں ترے ساتھ بجھے ہم
زیبا ہے لقب ہم کو بھی شمع سحری کا
آخر ہے شبِ ہجر تھم اے آہ شرربار
وقت آ گیا نزدیک دعائے سحری کا
بدنام ہی دنیا میں رہا قیس تو آخر
اچھا یہ طریقہ تو نہیں ناموری کا
کیا لائی ہے پھر نکہتِ گیسوئے معنبر
ہے آج دماغ اور نسیمِ سحری کا
تم صبح سے پہلے ہی چلے خیر سدھارو
میں بھی تو نمونہ ہوں چراغِ سحری کا
ہر صبح یہ لاتی ہے کسی زلف کی خوشبو
بھولے گا نہ احسان نسیمِ سحری کا
جس نرگس مخمور سے کل دیکھا تھا تونے
اب تک ہے مجھے نشہ اسی نیند بھری کا
کچھ زادِ سفر پاس نہیں راہ ہے دشوار
اللہ نگہبان مجھ ایسے سفری کا
کہتے ہیں وہ سن کر مری رسوائی کا قصہ
آیا نہ خیال اس کو مری پردہ دری کا
یارب یہ ہوا جائے نہ اس غیرتِ گل تک
مجھ پر ہی اثر ہو مری سوزِ جگری کا
اے قیسؔ مری جان ہے وہ غیرتِ لیلیٰ
میں حور کا شیدا ہوں نہ دیوانہ پری کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.