شبِ اسریٰ نقاب اٹھا جو رخ سے ناگہاں تیرا
شبِ اسریٰ نقاب اٹھا جو رخ سے ناگہاں تیرا
تو ظاہر ہو گیا عالم پہ رازِ کن فکاں تیرا
رہے گا اے دلِ مضطر ٹھکانا اب کہاں تیرا
مخالف ہے زمیں تیری عدو سے آسماں تیرا
سنبھل اے بلبلِ ناداں عدو ہے باغباں تیرا
چمن میں شاخِ گل پر کیا رہے گا آشیاں تیرا
کلیسا میں حرم میں دہر میں تیرا ہی چرچا ہے
مگر ہے فی الحقیقت خانۂ دل آستاں تیرا
جو توچاہے سمجھ لے بے وفا یا باوفا اے بُت
یہ تیری ذہنیت ہے وہم تیرا ہے گماں تیرا
یہ کہہ کر بجلیاں گرتی رہیں میرے نشیمن پر
ہمیں گلشن میں رکھنا ہی نہیں ہےآشیاں تیرا
مرے سجدے غلط ہوں میں تو قائل ہی نہیں اس کا
مری نظروں میں رہتا ہے ہمیشہ آستاں تیرا
دکھا اتنی نہ بے تابی مقامِ صبر ہے اے دل
خدا جانے لیا جائے گا کب تک امتحاں تیرا
نگاہِ عشق میں ہے ایک دنیا ہو کہ عقبیٰ ہو
یہاں بھی آستاں تیرا وہاں بھی آستاں تیرا
عرق آلودہ ہے شبنم سے اے گل کیوں جبیں تیری
چمن میں کون دیکھے منظرِ نزہت چکاں تیرا
ہر ایک منزل پہ ڈھونڈھا ہے تجھے اے یوسفِ ثانی
پتہ ملتا نہیں ہے کارواں درکارواں تیرا
بہت سے ہیں تجھے دیروحرم میں ڈھونڈنے والے
نہ یہ ہے آستاں تیرا نہ وہ ہے آستاں تیرا
بجائے خود نہ تھا دلچسپ ذکر دوزخ وجنت
قیامت ڈھا گیا واعظ مگر طرزِ بیاں تیرا
جسے حاصل ہو پابوسی زمیں کیا آسماں ہے وہ
کہ ہر محفل میں کوئی بھی نہ نکلا رازداں تیرا
تمنائے شہادت رکھنے والے آئے گا اک دن
کرے گی فیصلہ قاتلؔ کی تیغِ خونچکاں تیرا
- کتاب : Diwan-e-Qatil (Pg. 294)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.