کیف میں ڈوبی ہوئی ہے سجدہ سامانی مری
کیف میں ڈوبی ہوئی ہے سجدہ سامانی مری
جھک گئی یہ کس کےدر پر آج پیشانی مری
مطمئن تھے دیدہ و دل جب حجابوں میں وہ تھے
ان کے جلوؤں نے بڑھا دی اور حیرانی مری
دل گیا وارفتگی شوق بھی جاتی رہی
میرے دل کے ساتھ تھی آشفتہ سامانی مری
موت کا غم ہو مجھے یہ ہو نہیں سکتا کبھی
میں تو مطلق جاوداں ہوں خاک ہے فانی مری
میں امین جلوۂ حسن ازل ہوں دہر میں
ہائے دنیا نے نہ کچھ بھی قدر پہچانی مری
ایک پل بھی تو نہیں غم کے سفینے کو سکوں
کیا ڈبودے گی مجھے اشکوں کی طغیانی مری
دیکھنا اے دل کہیں یہ ان کی چوکھٹ تو نہیں
کیوں اٹھانے سے نہیں اٹھتی ہے پیشانی مری
دیکھنے والے حقارت کی نگاہوں سے نہ دیکھ
نازش دور جنوں ہے چاک دامانی مری
اے مذاق جاں دہی یہ آج تونے کیا کیا
ہو گئی محسوس قاتلؔ کو گراں جانی مری
- کتاب : دیوان قاتل (Pg. 298)
- Author : شاہ قاتلؔ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.