زندگی میں یوں تو اکثر بے سروساماں رہے
زندگی میں یوں تو اکثر بے سر و ساماں رہے
ہاں مگر لگتا ہے کب تک تنگئ داماں رہے
کیا کہیں جب تک رہے ہم، سوختہ ساماں رہے
جب اٹھے بزم جہاں سے اور بھی ویراں رہے
کوئی دستک دے ہوا، زندہ کوئی پیماں رہے
کوئی در کھلتا رہے، کچھ وصل کا امکاں رہے
ہم تو اٹھتے ہیں مگر محفل تری تاباں رہے
جام گردش میں رہے مینا سکون جاں رہے
دل پہ ساری عمر داغِ ہجر کے احساں رہے
آپ آئے ہیں تو پھر کچھ دعوتِ پیکاں رہے
اے وصالِ معتبر! ایسی شبِ ہجراں رہے
ہر تصور پختہ ہو کر صورتِ جاناں رہے
رات ڈھلتی ہی نہیں، کیا انتظارِ صبح نو
کیوں شبستانِ الم میں خواب سرگرداں رہے
اب کے شاخوں پر نشیمن بننے آئی ہے ہوا
اب کے شاید اور ہی کچھ گردش دوراں رہے
زندگی کی پھر سے ہو تشکیل نو، تعمیر نو
عمر جب ڈھلنے لگے اک حلقۂ یاراں رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.