Sufinama

چرواہے کی مناجات پر موسیٰ کا انکار۔ دفتردوم

رومی

چرواہے کی مناجات پر موسیٰ کا انکار۔ دفتردوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ : مرزا نظام شاہ لبیب

    ایک دن حضرت موسیٰ نے راستہ چلتے ایک چرواہے کو سنا کہ وہ کہہ رہاتھا کہ اے پیارے خدا! تو کہاں ہے۔ آ میں تیری خدمت کروں، تیرے موزے سیوں اور سر میں کنگھی کروں۔ تو کہاں ہے کہ میں تیری ٹہل خدمت بجالاؤں۔ تیرے کپڑے سیوں، پیوند پارہ کروں۔ تیرا جڑا ول دھوؤں ، جُنّویں چنوں اور اے پیارے تیرے آگے دودھ رکھوں، اگر تو بیمار ہو تو میں رشتہ داروں سے بڑھ کر تیمار داری کروں۔ تیرے ہاتھ چوموں، پیروں کی مالش کروں اور جب سونے کا وقت آئے تو تیری خوابگاہ کو جھاڑ کر صاف کروں۔ اگر تیرا گھر دیکھ لوں تو بلا ناغہ صبح وشام گھی اور دودھ تجھے پہنچاؤں، اور پنیر، روغنی روٹیاں اور پینے کو مزے داردہی چھاچھ یہ سب چیزیں صبح و شام تیار کرکے لاؤں۔ غرض میرا کام لانا ہو اور تیرا کام کھانا۔ میرے سارے بکرے تجھ پر فدا ہوں۔تیری یاد میں میری بے قراری حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

    وہ چرواہا اس طرح بے سروپا باتیں کر رہاتھا۔ موسیٰ نے پوچھا اے شخص تو یہ باتیں کسے کہہ رہا ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ اس سے جس نے ہم کو پیدا کیا اور یہ زمین و آسمان بنائے۔ حضرت موسیٰ نے کہا، ارے کم بخت! تو بجائے مسلمان ہونے کے کافر ہوگیا۔ یہ کیا بیہودگی، یہ کیا کافرانہ بکواس اور کیا فضول باتیں ہیں۔ اپنے منہ میں روئی ٹھونس،تیرے کفر کی بدبو، سارے جہان میں پھیل گئی۔ تیرے کفر نے دین کے کم خواب میں پیوند لگا دیئے۔ موزے اور پاتا بے تجھے سزاور ہیں۔ بھلا آفتاب کو ایسی چیزیں کیا ضرور۔ اگر تو ایسی باتوں سے زبان کو بند نہ کرے گا تو آتش (غیرت)ساری مخلوق کو جلا ڈالے گی۔ اگر تو خدا کو عادل و قادر جانتا ہے تو یہ بیہودہ بکواس تونے کیوں اختیار کی۔ حق تعالیٰ ایسی خدمت گزاری سے بے پروا ہے۔ ارے حق!ایسی باتیں تو کس سے کہہ رہا ہے۔ کیا، چچا، ماموں سے کہہ رہا ہے۔ بھلا جسم و حاجت اس کے پاک بے ہمتا کی صفات میں کہاں۔ دودھ تو وہ پئے جس کا جسم اور عمر بڑھے گھٹے اور موزے وہ پہنے جو پاؤں کا محتاج ہو۔

    چرواہے نے کہا کہ اے موسیٰؑ تو نے میرا منہ بند کردیا۔ مارے پشیمانی کے میری جان جلا ڈالی۔ یہ کہہ کر کپڑے پھاڑ ڈالے۔ ایک آہ سرد کھینچی اور جنگل میں گھس کر غائب ہوگیا۔ ادھر موسیٰ کو خدائے پاک سے وحی ہوئی کہ اے موسیٰ! تونے ہمارے بندے کو ہم سے کیوں جدا کردیا۔تو دنیا میں مخلوق کو ملانے آیا ہے؟ خبردار جہاں تک ممکن ہو فراق میں قدم مت رکھ۔ ہم نے ہر شخص کی باطنی فطرت جدابنائی ہے اور ہر شخص کو جدا بولی دی ہے۔ جو بات اس کے لیے اچھی ہے وہ تیرے لیے بری ہے۔ وہی بات اس کے حق میں شہد کا اثر رکھتی ہے اور تیرے حق میں زہر کا۔اس کے حق میں نور اور تیرے حق میں نار۔اس کے حق میں گلاب کا پھول اور تیرے حق میں کانٹا ہے ۔ہم پا کی وناپاکی اور سخت و سبک جانی سب سے الگ ہیں۔ میں نے یہ مخلوق اس لیے نہیں بنائی کہ کوئی فائدہ کماؤں بلکہ میرا مقصد تو صرف اس قدر ہے کہ ان پر اپنے کمالات کا فیضان کروں۔ ہندیوں کو ہند کی بولی اچھی اور سندیوں کو سند کی بولی پسند ہے۔ ان کی تسبیح سے میں کچھ پاک نہیں ہوجاتا بلکہ جو موتی ان کے منہ سے جھڑتے ہیں ان سے وہ خودہی پاک ہوتے ہیں۔ ہم کسی کے قول اور ظاہر کو نہیں دیکھتے۔ ہم تو آدمی کے باطن اور حال کو دیکھتے ہیں۔ اے موسیٰ داناؤں کے آداب اور ہیں، دل جلوں جان ہاروں کے آداب دوسرے ہیں۔

    جب موسیٰ نے حق سے یہ عتاب سنا تو بے تاب ہوکر جنگل میں اس چرواہے کو ڈھونڈنے نکلے۔ اس کا نقشِ قدم پہچانتے ہوئے اس قدر مارے مارے پھر ےکہ سارے بیابان کی خاک چھان ڈالی۔ قاعدہ ہے کہ دیوانوں کا نقشِ پا دوسروں کے پاؤں کے نشان سے الگ ہوتا ہے۔ آخر کار آپ نے اسے تلاش کرلیااور فرمایا کہ مبارک ہو۔ تجھے اجازت مل گئی۔ تجھے کسی ادب آداب اور قاعدے کی ضرورت نہیں۔ تیرے جی میں جو آئے وہ تو کہہ۔ تیرا کفر دین ہے اور تیرا دین نور جاں ہے۔ لہٰذا تجھے سب کچھ معاف ہے بلکہ تیرے دم سے ساری دنیا حفاظت میں ہے۔ اے شخص خدا کی مرضی سے تجھے معافی مل چکی ہے لہٰذا تو بے تکلف جو زبان پر آئے وہ کہہ دے۔ چرواہے نے کہا، اے موسیٰ! اب میں اس قسم کی باتوں سے در گزرا، اب تو میں اپنے خونِ دل میں لتھڑا ہوا ہوں۔ اب تو میں سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے بڑھ چکا ہوں بلکہ اس کے بھی آگے لاکھوں برس کا راستہ طے کرچکا ہوں۔ تو نے جو میرے گھوڑے کو کوڑا لگایا تو وہ فوراً پلٹا اور ایک ہی جست میں سب آسمانوں کو طے کرگیا۔ اب میرا حال بیان سے باہر ہے اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ بھی میرا احوال نہیں ہے۔

    اے شخص تو جو خدا کی تعریف اور حمد و سپاس کرتا ہے تیرا حال بھی کچھ اس چرواہے سے بہتر نہیں ہے۔ تو سراسر ناقص اور جسمانی زندگی سے آلودہ ہے اور تیرا حال وقال بھی سب ناقص وگندہ ہے۔ یہ محض اس رحیم وکریم کی مہر بانی ہے کہ وہ تیرے ناقص تحفے کو قبول فرمالے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 70)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے