Sufinama

ایک شخص کا موسیٰ سے چوپایوں کی زبان سیکھنا۔ دفترسوم

رومی

ایک شخص کا موسیٰ سے چوپایوں کی زبان سیکھنا۔ دفترسوم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    حضرت موسیٰ سے ایک نوجوان نے جانوروں کی زبان سیکھنے کی خواہش کی تاکہ وحشی واہلی جانوروں کی آوازوں سے خدا کی معرفت حاصل کرے کیونکہ بنی آدم کی ساری زبانیں تو کھانے پانی اور مکرو فریب ہی کے کام میں لگی رہتی ہیں۔ ممکن ہے جانور اپنی شکم پُری کی اور کچھ تدبیر کرتے ہوں۔ موسیٰ نے کہا کہ اس ہوس سے باز آ کیونکہ اس میں طرح طرح کے خطرے ہیں بجائے کتاب و گفتار کے معرفت خدا سے طلب کر۔

    مگر جس قدر حضرت نے اس کو منع کیا اسی قدر اس کا شو زیادہ ہوگیا اور قاعدہ ہے کہ جس بات کو منع کیا جائے اسی کی رغبت بڑھ جاتی ہے۔ اس نے عرض کی کہ یا حضرت جب سے آپ کا نور چمکا ہے ہر چیز کی استعداد کھل گئی ہے۔ مجھے اس مقصد سے محروم کرنا آپ کی مہرومحبت سے دور ہے۔ آپ خدا کے قائم مقام ہیں اگر مجھے اس تحصیل سےروک دیں تو میں مایوس ہوجاؤں گا۔ حضرت موسیٰؑ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ اے خدائے بے نیاز معلوم ہوتا ہے کہ اس عقل مند آدمی کو شیطان مردود نے کھلونا بنا لیا ہے۔

    اگر اسے میں سکھا دوں تو اس کے ساتھ برائی ہوتی ہے اور اگر نہ سکھاؤں تو اس کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے۔ خدا کا حکم ہوا کہ اے موسیٰ! تم اسے سکھاؤ، کیونکہ ہم نے اپنے کرم سے کبھی کسی کی دعا رد نہیں کی ہے۔ حضرت موسیٰ نے جاکر بہت نرمی سے اسے سمجھایا کہ تیری مراد تو اب خود بخود حاصل ہوجائے گی لیکن بہتر ہے کہ تو خدا سے ڈرے اور اس خیال سے باز آئے کیونکہ شیطان نے پٹی تجھے پڑھائی ہے۔ مفت کا دردِ سر مول نہ لے کیوں کہ یہ تحصیل تجھ کو ہزار آفتوں میں پھنسا دے گی۔ اس نے عرض کی کہ بہت اچھا، سارے جانوروں کی بولی نہ سہی، کتے کی بولی جو میرے دروازے پر رہتا ہے اور مرغ کی بولی جو گھر میں پلا ہے میں جان لوں تو یہی کافی ہے۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اچھا لے آج سے ان دونوں کی بولی کا علم تجھ پر کھول دیاگیا۔

    صبح سویرے وہ آزمایش کے لیے اپنے دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ ماما نے دسترخوان جو بچھایا تو ایک باسی روٹی کا ٹکڑا کھانے سے بچ رہاتھا وہ نیچے گر پڑا۔ مرغ تو تاک میں لگا ہوا تھا وہ فوراً اڑا لے گیا۔ کتے نے شکوہ کیا کہ تو تو کچے گیہوں بھی چگ سکتا ہے میں دانہ نہیں چُگ سکتا ہے۔ اے دوست یہ ذرا سا روٹی کا ٹکڑا جو در اصل ہمارا حصہ ہے وہ بھی توہی اڑا لیتا ہے۔ مرغ نے یہ سن کر کہا کہ ذرا صبر کر اور اس کا افسوس نہ کر، خدا تجھ کو اس سے زیادہ اچھا بدلا دے گا۔ کل ہمارے مالک کا گھوڑا مرجائے گا پھر خوب پیٹ پھر کر کھائیو۔ گھوڑے کی موت کتوں کی عید ہے۔ بے کوشش ومحنت خوب رزق میسر آتا ہے۔

    یہ سنتے ہی مالک نے گھوڑا لے جاکر بیچ ڈالا اور دوسرے دن جو دسترخوان بچھا تو مرغ پھر روٹی کا ٹکڑا اڑا لے گیا اور کتے نے پھر شکایت کی کہ اے باتونی مرغ! تو کیسا جھوٹا ہے۔ ارے ظالم تونے کہا تھا کہ گھوڑا مرجائے گا، گھوڑا کہاں مرا، تو سیاہ بخت سچائی سے محروم ہے۔ باخبر مرغ نے جواب دیا کہ وہ گھوڑا دوسری جگہ مرگیا۔ مالک گھوڑا بیچ کر نقصان سے بچ گیا اور اپنا نقصان دوسروں پر ڈال دیا لیکن اس کا اونٹ مرجائے گا۔

    یہ سن کر فوراً مالک نے اونٹ کو بھی بیچ ڈالا اور مرنے کے غم اور نقصان سے نجات پائی۔تیسرے دن کتے نے مرغ سے کہا، ابے جھوٹوں کے بادشاہ! کب تک جھوٹ بولے جائے گا۔ ارے نااہل تو تو بالکل ہی فریبی دلال ہے۔ مرغ نے کہا کہ اس نے جلدی کر کے اونٹ کو بیچ ڈالا لیکن کل اس کا غلام مرے گا اور اس کے اقربا حاضری کی روٹیاں فقیروں کو دیں گے اور کتّوں کو بھی خوب ملیں گی۔ یہ سنتے ہی مالک نے غلام کو بھی بیچ دیا اور نقصان سے بچ کر بہت خوش ہوا۔

    وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا اور شکر پر شکر کرتا تھا کہ میں تابڑ توڑ تین حادثوں سے بچ گیا۔ جب سے مجھے مرغ اور کتے کی بولیاں آگئی ہیں جب سے میں نے فرشتۂ قضا کی آنکھیں پٹم کردی ہیں۔

    چوتھے دن اس بے آس کتے نے کہا کہ ابے بڑبولے، فضول گو مرغ وہ تیری پیشین گوئیاں کیا ہوئیں۔ یہ تیرا مکروفریب کب تک چلے گا۔ تیرے ٹاپے سے تیرا جھوٹ باہر نکلا کر تاہے، اس نے کہا توبہ تو بہ ، میں اور میری قوم اور ذلیل، جھوٹ بولے، بھلا یہ کب ہوسکتا ہے۔ ہماری قوم مؤذن کی طرح راست گفتار ہے۔ اصل یہ ہے ہ وہ غلام خریدار کے پاس جاکر مرگیا اور خریدار کا نقصان ہوا، مالک نے خریدار کا مال تو برباد کرایا لیکن خوب سمجھ لے کہ اب خود مالک کی جان پر آبنی۔ ایک نقصان سینکڑوں نقصانوں کو دفع کردیتا ہے۔ جسم ومال کا نقصان جان کا صدقہ ہوجاتا ہے۔ باشاہوں کی عدالت میں تو مال کا جرمانہ ادا کرکے اپنی جان بچا لتیا ہے۔ مگر قضائے الٰہی کے بھید سے ناواقف ہے کہ اپنے مال کو بچاتا ہے حالاں کہ اگر وہی مال تجھ پر سے صدقے ہوجائے تو وہی نقصان تیرا فائدہ بن جائے۔ اب کل یقیناً خود مالک ہی مرجائے گا۔

    اگر اس کے ورثا فاتحہ میں گائے قربانی کریں گے پھر تو خوب مزے مزے کے کھانےکھائیو۔ روٹیاں، دسترخوان کا جھوٹا اور قسم قسم کے لذیذ کھانے، گائے کے گوشت کا قورمہ اور چپاتیاں فقیروں مسکینوں سے لے کر کتوں تک کوڈالی جائیں گی۔ گھوڑے، اونٹ اور غلام کی موت اس بے وقوف مغرور کی جان کا بدلہ تھا۔ مال کے نقصان اس اور اس کے غم سے تو بچ گیا اور مال بھی جمع کرلیا لیکن اپنی جان گنوائی۔

    مالک مرغ کی پیشین گوئی کو کان لگا کر سن رہاتھا۔ یہ سنتے ہی حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے دروازے پہنچا۔مارے خوف کہ زمین پرسر گھسنے لگا کہ اے کلیم اللہ میری فریاد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جا، اب اپنے کو بھی بیچ کر نقصان سے بچ جا۔ فرمایا تو تو اس کام میں بڑا مشّاق استاد ہوگیا ہے۔ اب کے بھی اپنا نقصان دوسرے مسلمانوں کے متھے مار اور پنی تھیلیوں اور ہمیانوں کو دہرا تہرا بھر لے۔ یہ امر شدنی جو تجھے آئینے میں اب نظر آرہا ہے میں اس کو پہلے ہی اینٹ میں دیکھ چکا تھا۔ آنے والی مصیبت کو عاقل پہلے سے دیکھ لیتا ہے اور نادان بالکل آخر میں دیکھتا ہے۔

    اس نے دوبارہ رونا دھونا شروع کیا اور کہا کہ اے صاحبِ کرم مجھے مایوس نہ فرمایئے بلکہ رحمت وکرم کا امیدوار بنایئے۔ مجھ سے تو نامناسب حرکت ہوئی لیکن آپ معاف فرمایئے۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اے فرزند اب تو چلّے سے تیر نکل چکا اور تیر کے واپس آنے کا دستور نہیں۔ البتہ میں اس کی عدالت گاہ سے درخواست کرتاہوں کہ مرتے وقت باایمان مرے۔ جو ایمان دار مرے وہ زندہ رہتا ہےاور جو ایمان ساتھ لے جائے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

    اسی وقت اس کی طبیعت بگڑ گئی، دل الٹ پلٹ ہونے لگا، ایک طشت میں قے کی۔ وہ قے موت کی تھی۔ ہیضے کی نہ تھی، چار آدمی اٹھاکر گھر لے گئے۔ اس پر تشنّج طاری تھا۔ موسیٰ نے اس صبح کو مناجات میں عرض کی کہ اے خدا! اسے ایمان سے بے نصیب نہ فرما۔تواپنی بادشاہی کے صدقے میں اس پر بخشش فرما۔ یہ گستاخی وزیادتی اس نے بھولے سے کی تھی، ہر چند میں نے اس سے کہا تھا کہ یہ علم تیرے لائق نہیں ہے لیکن وہ میری نصیحت کو ٹالنے کی بات سمجھا۔ خدائے بزرگ نے اس شخص پر رحم کیا اور موسیٰؑ کی دعا قبول فرمائی۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 139)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے