Sufinama

ایک اعرابی کا خلیفہ بغداد کے پاس کھارا پانی بطورتحفہ لے جانا۔ دفتراول

رومی

ایک اعرابی کا خلیفہ بغداد کے پاس کھارا پانی بطورتحفہ لے جانا۔ دفتراول

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    اگلے زمانے میں ایک خلیفہ تھا جس نے حاتم کو بھی اپنی سخاوت کے آگے بھکاری بنادیا تھا اور دنیا میں اپنی دادودہش اور فیضِ عام سے حاجت مندی اور ناداری کی جڑ اکھیڑ دی تھی۔ مشرق سے مغرب تک اس کی بخشش کا چرچا ہوگیا۔ ایسے بادشاہ کریم کے زمانے کی ایک داستان سنو!ایک رات اعرابی عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہم ہر قسم کی محتاجی اور تکلیف برداشت کررہے ہیں، سارا عالم خوش ہے اور ہم ناخوش۔ روٹی کھانے کو میسر نہیں ہمارا کھانا پینا تو درد اور آنسو ہیں۔ ہمارا لباس دن کی دھوپ ہے اور سوتے وقت رات ہماری تو شک ہے اور چاندنی لحاف ہے۔ چاند کے ہالے کو گول چپاتی سمجھ کر ہمارا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے۔ ہمارےفقرو فاقہ سے فقیروں کو بھی شرم آتی ہے۔ ہمارے دن رات روٹی کی فکر ہی میں گزرتے ہیں۔ جیسے سامری آدمیوں کی صحبت اور آبادی سے وحشت کرتاتھا اسی طرح اپنے بیگانے ہم سے دور بھاگتے ہیں۔

    میاں نے کہا یہ شکایتیں کب تک کئے جائے گی۔ ہماری عمر ہی ایسی کیا زیادہ رہ گئی ہے۔ بہت بڑا حصّہ گزر چکا۔ عقل مند آدمی مفلسی اور فارغ البالی کو خاطر میں نہیں لاتا کیونکہ دونوں حالتیں پانی کی موج میں آئیں اور گزر گئیں۔ موجِ دریا چاہے ہلکی ہو چاہے تیز جب کسی دم اسے قرار ہی نہیں تو پھر اس کا ذکر ہی کیا؟ جو بہت آرام و عیش سے جیتا ہے وہ بہت بری طرح مرتا ہے۔تو تو میری بیوی ہے، بیوی کو اپنے شوہر کا ہم خیال ہونا چاہئے تاکہ آپس کے اتفاق سے سب کام ٹھیک ہوں۔ جوتی کا جوڑا باہم ایک ساہی مناسب ہوتا ہے۔ اگر جوتے اور موزے کا جوڑا پہننے کے لیے بنایا جائےتو کیسا بد زیب ہوگا۔ میں تو دل مضبوط کیے قناعت کی طرف جا رہا ہوں تو حرص و ہوا کی طرف کیوں جارہی ہے؟ وہ مردِ قانع خلوص اور ہمدردی سے اس قسم کی نصیحتیں بیوی کو دیتا رہا۔ بیوی نے جھلاّ کر ڈانٹا کہ او بے غیرتی کے دیندار، میں آئندہ تیری باتوں میں نہ آؤ ں گی۔ خالی خولی دعوے اور پند و نصیحت کی بکواس مت کر۔ تو نے کب قناعت سے جان روشن کی،تونے تو قناعتوں کا نام سیکھ لیا ہے۔ تو خد اکا نام بیچ میں ڈال کر مجھے چکمہ دیتا ہے تاکہ (جب میں شکوہ کروں) تو مجھے گستاخی اور فساد کے الزام میں بدنام کرے۔ تیری نصیحت نے مجھے لاجواب نہیں کیا۔ ہاں نامِ حق نے مجھے بند کردیا۔ مگر تُف ہے تجھ پر کہ تونے نامِ حق کو چڑی مار کا پھندا بنالیا۔ نامِ حق ہی میرا بدلہ تجھ سے لے گا۔ میں نے تو جان و تن نامِ حق کے حوالے کردیا تاکہ میرے زخموں کی چِڑچڑاہٹ تیری رگِ جاں تک پہنچے یا تجھ کو بھی میری طرح قیدی (عورت) بنادے۔ عورت نے اس قسم کی صلواتوں کے دفتر کے دفتر شوہر کو سنادیئے۔ مرد عورت کے طعنے چپ چاپ سنتا رہا۔ اس کے بعدد یکھوں تو جواب کیا دیتا ہے۔ مرد نے کہا کہ اے عورت! تو میری بیوی ہے کہ بِیچا۔ لڑائی جھگڑے اور بدگوئی کو چھوڑ اور اگر نہیں چھوڑتی تو مجھے چھوڑ۔ میرے کچّے پھوڑوں پر ڈنک نہ مار اور میری بے خود جان پر زخم نہ لگا۔ اگر تو زبان بند کرے تو خیر! ورنہ یاد رکھنا میں ابھی گھر بار چھوڑ دوں گا۔ تنگ جوتا پہننے سے ننگے پاؤں پھرنا بہتر ہے۔ ہر وقت کی خانہ جنگی سے سفر کی مصیبت جھیلنی اچھی۔

    عورت نے جب دیکھا کہ وہ بالکل بد مزاج اور گرم ہوگیا ہے تو جھٹ رونے لگی۔ ظاہر ہے کہ رونا عورت کا زبردست جال ہے۔ پھر عاجزی سے کہنے لگی۔ میاں! میں تیری بیوی نہیں تیرے پاؤں کی خاک ہوں۔ میں تجھے ایسا نہ سمجھتی تھی بلکہ مجھے تو تجھ سے دوسری ہی امید تھی۔ جسم وجان اور جو کچھ بھی میں ہوں سب کا توہی مالک ہے اور توہی میرا فرماں روا ہے۔ اگر فقر وفاقے کی وجہ سے میرا دل مقامِ صبر سے ہٹا بھی ہے تو یہ اپنے لیے نہیں بلکہ تیرے لیے ہے۔ تو میری سب مصیبتوں اور بیماریوں کی دوا بنارہا ہے۔اس لیے میرا جی نہیں چاہتا کہ توبے سروسامان رہے۔ تیری جان کی قسم یہ شکوہ وشکایت اپنے لیے نہیں بلکہ یہ آہ وواویلا تیرے لیے ہے۔ تو جدائی کی باتیں جوکرتا ہے یہ ٹھیک نہیں ، جو چاہے کر مگر یہ نہ کر۔

    اس طرح کی باتیں کہتی رہی اور روتے روتے اندھے منہ گر پڑی۔ اس بارش میں سے ایک بجلی چمکی اور مردے کے دل پر اس کی ایک چنگاری جھڑی۔ مرد اپنی گفتگو کی پشیمانی سے ایسا دردمندہوا جیسے مرتا ہوا کو توال اپنے سابقہ ظلم کی یاد سے ۔جی میں کہنے لگا کہ جب اپنی جان کا میں شوہر ہوں تو اپنی جان کو میں نے لاتیں کیوں ماریں۔ پھر اس سے کہا، اے عورت! میں اپنے کہے پر پشیمان ہوں۔ اگر پہلے میں کافر تھا تو اب مسلمان ہوتا ہوں۔ میں تیرا گناہ گار ہوں۔ میری معذرت قبول کر ،تیری مخالفت سے باز آیا۔ اب تجھے اختیار ہے تیغ میان سے نکال۔ جو کچھ توکہے گی وہی بجالاؤں گا۔ بدی نیکی غرض جو کچھ نتیجہ نکلے اس پر توجہ نہ کروں گا۔ میں تیرے وجود میں فنا ہوجاوں گا۔ کیوں کہ میں محب ہوں اور محبّت اندھی اور بہری ہوتی ہے۔ عورت نے کہا کہ آیا یہ عہد تو نیکی کے ساتھ کررہا ہے۔یا ایک حیلہ نکال کر میرےدل کا بھید لے رہا ہے؟ مرد نے کہا اس خدا کی قسم جو تمام بھیدوں کا جاننے والا ہے جس نے خاک سے آدم جیسے پاک نبی کو پیدا کیا، اگر تیرے پاس میری یہ درخواست تیرا امتحان کرنے کی غرض سے ہے تو ذرا اس امتحان کو بھی آزماکر دیکھ۔ عورت نے کہا، دیکھ آفتاب چمک رہا ہے اور ایک عالم اس سے روشن ہے۔ خدا کا خلیفہ اور رحمٰن کا نائب جس سے شہرِ بغداد نوبہار بناہوا ہے۔ اگر تو اس بادشاہ سے ملے تو خود بھی بادشاہ ہوجائے، اقبال مندوں کی دوستی بجائے خود کیمیا ہے بلکہ ان کی ادنیٰ سی توجہ کے آگے کیمیا بھی کیا چیز ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ابوبکر پر پڑگئی۔وہ ایک تصدیق میں صدیق ہوگئے۔ مرد نے کہا کہ بھلا میں بادشاہ کی نظر میں کیسے آسکتا ہوں۔ کسی بہانے کے بغیر اُدھر کا رُخ بھی نہیں کرسکتا۔ عورت نے کہا کہ ہمارے مشکیزے میں برساتی پانی بھرا رکھا ہے۔ تیری ملک اور سروسامان جو کچھ ہے یہی ہے۔ اس پانی کے مشکیزے کو اٹھا کر لے جا اور اس نذر کے ساتھ شاہنشاہ کے حضور پیش ہو اور عرض کر کہ ہماری جمع پونچی اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ بے آب و گیاہ ریگستان میں اس سے سے بہتر پانی نہیں جڑتا چاہے اس کا خزانہ موتی اور جواہر سے لبریز ہو لیکن ایسا پانی اس کے خزانے میں نایاب چیز ہے۔ مرد نے کہااچھی بات ہے۔ مشکیزے کا منہ بند کر۔ دیکھ تو یہ نذرانہ ہمیں کیسا فائدہ پہنچاتا ہے۔ تو اس کو نمدے میں سی دے تاکہ بادشاہ اسی سوغات سے روزہ کھولے۔ایسا پانی دنیا بھر میں کہیں نہیں۔ یہ تو نتھری ہوئی شراب ہے۔

    پس اس مردِ عرب نے مشکیزہ اٹھایا اور سفر میں دن کو رات اور رات کو دن کردیا۔ ہرج مرج کے وقت مشکیزے کی حفاظت کے لیے بے قرار ہوجاتاتھا۔ اس نگہبانی کے ساتھ بیابان سے شہر میں لایا۔ ادھر عورت نے جانماز بچھائی اور گڑگڑا گڑ گڑا کر اے پروردگار حفاظت کر! اے پروردگار حفاظت کر! کا وظیفہ پڑھنے لگی۔

    عورت کی دعا اور اپنی محنت وسعی سے آخر وہ عرب چوروں اور چھوکروں کے پتّھروں سے بچتا بچاتا صحیح سلامت دارالخلافہ تک مشکیزہ لے گیا۔ وہاں دیکھا کہ ایک بارگاہ عالی شان اور نہایت وسیع بنی ہوئی ہے اور اہلِ غرض اپنے اپنے پھندے بچھائے حاضر ہیں۔ ہر طرف کے دروازوں سے اہلِ حاجت آتے اور اپنی مراد پاتے ہیں۔ جب اعرابی دور در از بیابان سے اس باگارہ تک پہنچا تو نقیب آئے اور مہربانی والتفات کا گلاب اس کے منہ پر چھڑکنے لگے۔

    شاہی نقیب بے کہے اس کی ضرورت کو سمجھ گئے، ان کا کام یہی تھا کہ سوال سے پہلے عطا کریں۔ ان نقیبوں نے پوچھا کہ اے عرب کے شریف! تو کہاں سےآرہا ہے؟ اور مصائب و آلام سے کیا حال ہوگیا ہے؟ اس نے کہا اگر تم مجھے عزت دو تو میں شریف ہوں اور اگر منہ پھیر لو تو بالکل بے عزت ہوں۔ اے امیرو! تمہارے چہروں پر امارت برستی ہے۔ تمہارے چہروں کا آب ورنگ کچّے سونےسے زیادہ خوش رنگ ہے۔ میں مسافر ہوں ریگستان سے بادشاہ کے کرم و بخشش کی امید پر آیاہوں۔ اس کی خوبیوں کی خوشبو بیابانوں تک پہنچتی ہے۔ ریت کے ذروں تک میں جان آگئی ہے۔ یہاں تک تو میں اشرفیوں کی خاطر آیا تھا مگر جب یہاں پہنچا تو اس کے دیدار کے لیے بے قرار ہوگیا۔ میں اس دروازے پر ایک مادی چیز کی طلب میں آیا تھا، مگر جب اس دہلیز پر پہنچ گیا تو خودہی صدر ہوگیا۔ پھر اس مشکیزے کو پیش کر کے کہاکہ یہ ہدیہ حضورِ سلطان میں پہنچاؤ اور بادشاہی سوالی کو ضرورت وحاجت سے بے نیاز کر دو اور عرض کرو کہ یہ میٹھا پانی سوندھی مٹی کے گھڑے کا ہے جس میں برساتی پانی جمع کیا گیاتھا۔ نقیبوں کو اس کی اس تعریب پر ہنسی آنے لگی لیکن انہوں نے جان کی طرح اس مشکیزے کو اٹھا لیا کیوں کہ بیدار مغز اور نیک دل بادشاہ کی خو، بو، سب ارکانِ دولت میں اثر کرگئی تھی۔

    جب خلیفہ نے دیکھا اور اس کا حال سنا تو اس کے مشکیزے کو اشرفیوں سے بھر دیا۔ ایسے انعام وکرام اور خلعت دیے کہ وہ عرب بھوک پیاس کو بھول گیا۔ پھر ایک نقیب کو اس دریائے کرم بادشاہ نے اشارہ کیا کہ یہ اشرفیوں بھرا مشکیزہ اس کے ہاتھ میں دیا جائے اور اور واپسی میں اس کو دریائے دجلہ کے راستے روانہ کیا جائے۔ وہ بڑے طول طویل راستے سے آیا ہے اور دجلہ کی راہ سے بہت نزدیک ہوجاتا ہے۔ کشتی میں بیٹھے گا تو ساری اگلی تھکن بھی بھول جائے گا۔ نقیبوں نے یوں ہی کیا، اس کو اشرفیوں سے بھر کر مشکیزہ دے دیا اور دجلہ پر لے پہنچے۔ جب وہ عرب کشتی میں بیٹھا اور دجلہ دیکھا تو مارے شرم کے اس کا سر جھک گیا۔ سجدے میں گرکر کہنے لگا داتا کی دین بھی نرالی ہے اور اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ اس نے میرے تلخ پانی کو قبول کرلیا۔ اس دریائے جود نے میری خراب اور کھوٹی جنس کو بغیر کسی پس وپیش ہاتھوں ہاتھ لیا۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 32)
    • Author :مولانا رومی
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے