جب تصور میں کسی کو سامنے لاتا ہوں میں
جب تصور میں کسی کو سامنے لاتا ہوں میں
ان کے جلوؤں کی فراوانی میں کھو جاتا ہوں میں
در حقیقت راز دارِ منزلِ مقصود ہوں
دیکھنے کو ہر قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہوں میں
مجھ کو لے آئی ہے اس منزل پہ اب میری وفا
ان کے اندازِ کرم پر بھی تڑپ جاتا ہوں میں
نازک اندازِ نظران کا ہے اتنا دل نشیں
تیر جو جاتا ہے خالی خود اٹھا لاتا ہوں میں
ان کے ہر تیر نظر میں ہے بھرا کیف و سرور
زخمِ دل میں کیا کہوں کیا کیا مزا پاتا ہوں میں
لوٹتا ہوں حسرتوں کی میتیں دل میں لیے
کیا امید لے کے ان کی بزم سے میں جاتا ہوں میں
اے امیرؔ صابری روتے ہیں قدسی عرش پر
جب کبھی افسانۂِ الفت کو دہراتا ہوں میں
- کتاب : کلام امیر صابری (Pg. 56)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.