نہیں عشق اس کا تو رنج ہمیں کہ شکیب و قرار ذرا نہ رہا
نہیں عشق اس کا تو رنج ہمیں کہ شکیب و قرار ذرا نہ رہا
غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
ترے خنجر و تیغ کی آب رواں ہوئے جیسے سبیل ستم زدگان
گیے گتنے ہی قافلہ خشک زباں کوئی تشنہ آب ذرا نہ رہا
کئی روز میں آج وہ ماہ لقا ہوا سامنے میرے جو جلوہ نما
مجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب ذرا نہ رہا
میں نے چاہا تھا اس کو کہ روک رکھوں میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کیے لاکھوں فریب کر دروں افسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا
لگے یوں تو ہزاروں ہی تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک میں ہم
اس کی ناز و کرشمہ کی تیغ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر رہے دیکھتے اوروں کی عیب و ہنر
پڑی اپنی خطاؤں پہ جب کہ نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ظفرؔ آدمی اُس کو نہ جانیے گا، گو ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہے جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.