یہ پوچھو دل سے شرمیلی نگاہِ یار کیسی ہے
یہ پوچھو دل سے شرمیلی نگاہِ یار کیسی ہے
کرے جو میں ہی میں کام وہ تلوار کیسی ہے
تمہاری چال کی ہم مٹنے والے داد کیا دیں گے
قیامت سے ذرا پوچھو میری رفتار کیسی ہے
نگاہِ تیز میں اس کے چمک جاتی ہے بجلی سی
الٰہی خیر یہ تلوار یں تلوار کیسی ہے
ترستی تھیں کسی دیدار کو یہ ایک مدت سے
اب ان آنکھوں سے پوچھو لذت دیدار کیسی ہے
دکھا کر تیغ برو ناز سے کہتے ہیں وہ دیکھو
یہ کیسی ہے یہ کیسی ہے میری تلوار کیسی ہے
مجھے تم دیکھتے ہی گالیوں پر کیو ں اتر آئے
بھرے بیٹھے تھے کیا محفل میں یہ بھرمار کیسی ہے
رہا جاتا ہے دل سے حرف مطلب لب تلک آ کر
ذرا سی بات ہے لیکن مجھے دشوار کیسی ہے
سماتے ہی نظر میں صاف اتری ہے میرے دل سے
تری تصویر کی بھی شوخیٔ رفتار کیسی ہے
تغافل سے نہ ہو پرسش تو پھر اے داغؔ کیا کیجے
بتاؤں حالت ایسی ہے جو پوچھے یار کیسی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.