فراق جاناں میں ہم نے ساقی لہو پیا ہے، شراب کر کے
فراق جاناں میں ہم نے ساقی لہو پیا ہے، شراب کر کے
تپ الم نے جگر جو بھونا تو ہم نے کھایا، کباب کر کے
مرے جنازے پہ میرا قاتل نماز پڑھ کر یہ کہہ رہا ہے
لے اب تو سر سے عذاب اترا چلا ہوں کارِ ثواب کر کے
یہ کیا بڑھاپے میں جوش اٹھا تمام دنیا ہنسے گی واعظ
کہیں گے سب دور کالا منہ ہو تو کیا کرے گا خضاب کر کے
نہ پھول بلبل خوشی سے ہرگز جو گل کہ پھولا نہیں سمایا
گیا وہ عطار کی دکان پر پھر اس نے کھینچا گلاب کر کے
ادھر تو منہ سے سوال نکلا، ادھر ستم گر نے بات کاٹی
ذلیل ہونا پڑا ہے کیسا صنم کو حاضر جواب کر کے
ہوئے سب عاشقی میں رسوا مجھی پہ کیا منحصر ہے صاحب
تو یوں بھی در در نہیں پھراتے کسی کو خانہ خراب کر کے
فقیر مسکین گدا بھکاری کہاں تھے ایسے نصیب میرے
رہے مقدر پکارتے ہیں وہ مجھ کو عالی جناب کر کے
وفائیں طاہرؔ کی ہیں زیادہ جفائیں ہیں یا تمہاری افزوں
بتوں تم ہی پر یہ فیصلہ ہے تم ہی بتا دو حساب کر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.