Font by Mehr Nastaliq Web

نعت و منقبت

پیغمبرِ اسلام حضرت محمد پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ اسی طرح اشعار کے ذریعے کسی صوفی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں۔

حضرت مولانا سید حمرہ دہلوی کے صاحبزادے

منیری فاؤنڈیشن کے سرپرست اور تصوف کے ذوق سے معمور

1962

شبنم غضنفری کے شاگرد

-1922

بیدم وارثی کے استاد محترم اور حضرت شاہ اکبر داناپوری کے ممتاز مرید و خلیفہ اور نامور شاگرد

-1919

داغ دہلوی کے شاگرد اور شاہ اکبر داناپوری کے بھانجہ اورمرید

1912 -1983

حلیم مسلم کالج، کانپور میں بحیثیت مدرس اور معروف صوفی شاعر

خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ سجادہ نشیں کے برادر اصغر اور علم و آگہی سے معمور

-1878

خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف کے معروف سجادہ نشیں

خانقاہ سراجیہ، بنارس کے سجادہ نشیں اور ممتاز محقق و دانشور

1901 -1983

مختلف فکر و فن کے لئے مشہور

1939

خانقاہ نیازیہ بریلی شریف کے معروف صوفی شاعر

1274 -1337

خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید اور جانشین

1141 -1209

مثنوی مخزن الاسرار، خسرو شیریں اور لیلیٰ مجنوں کے مصنف

1854 -1933

سید حیدر علی نام، نظمؔ تخلص، 1853ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بہت محنت اور توجہ سے تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی ہی میں علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگان اودھ کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ شاہ اودھ معزول کر کے کلکتہ بھیجے گئے تو یہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ چنانچہ کلکتہ کے مٹیا برج میں قیام رہا۔ وہاں شہزادوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک عالم سے خود بھی علم حاصل کرتے رہے۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کرنے کے بعد وظیفہ کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ ایک طویل عرصہ کالج کی خدمت کے بعد وظیفہ یاب ہوئے اور ولی عہد کو تعلیم دینے کی خدمت سپرد ہوئی۔ حسن کارکردگی کے صلے میں سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی اثنا میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا۔ ارباب اختیار نے نظمؔ کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خیال سے ادبی ناظر کی حیثیت سے ان کی خدمات حاصل کیں۔ ذمہ داری یہ کہ نظمؔ تراجم پر نظر ثانی کرتے اور ان کی نوک پلک سنوارتے۔ 1933ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مرتے دم تک وہ اردو شعروادب کی خدمت کرتے رہے۔ نظمؔ نے اردو میں نئے انداز کی نظمیں لکھیں اور اس سے بڑھ کر ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انگریزی نظموں کے انہوں نے ایسے دلکش ترجمے کیے کہ ان پر ترجموں کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ سب سے مشہور ترجمہ گرے کی نظم کا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنام مرگئے۔ نظمؔ نے مرثیے کا اردو میں ترجمہ کیا اور’گورغربیاں‘ نام دیا۔ اردو میں کوئی اور ترجمہ نہ اس پائے کا موجود ہے، نہ کسی ترجمے نے اتنی شہرت پائی۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے؎ وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا یہ دیرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے ان کی زبان سادہ ہے مگر اس سادگی میں غضب کی دلکشی ہے۔ نظم کی تشبیہیں اور استعمارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے قصیدے بھی لکھے اور ان میں جدت پیدا کی۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

1735 -1830

ممتاز شاعر، جنہوں نے ہندوستانی ثقافت اور تہواروں پر نظمیں لکھیں، ہولی، دیوالی اور دیگر موضوعات پر نظموں کے لئے مشہور

1784 -1856

پھلواری شریف کے معروف صوفی شاعر اور شاہ نعمت اللہ قادری کے چھٹے فرزند

2003

عہد حاضر کا نوجوان شاعر

1879 -1962

داغ دہلوی کے ممتاز شاگرد

1959

درس و تدریس، امامت و خطابت میں مشغول

بوستان نوابی کے گل سرسبد، دور حاضر کے جدت طراز نعت گو شاعر

خانقاہ قادریہ، بدایوں سے وابستہ

بولیے