Sufinama

بہ سخن آمدن طفل درمیان آتش و تحریض کردن خلق را در افتادن بہ آتش

رومی

بہ سخن آمدن طفل درمیان آتش و تحریض کردن خلق را در افتادن بہ آتش

رومی

MORE BYرومی

    بہ سخن آمدن طفل درمیان آتش و تحریض کردن خلق را در افتادن بہ آتش

    یہودی بادشاہ کا ایک عورت کو مع بچے کے لانا اور اس کا بچے کو

    آگ میں ڈالنا اور آگ میں سے بچے کا بولنا

    یک زنے با طفل آورد آں جہود

    پیش آں بت و آتش اندر شعلہ بود

    وہ یہودی ایک عورت کو مع بچے کے لایا

    بت کے سامنے ، اور آگ شعلہ زن تھی

    طفل ازو بستد در آتش در فکند

    زن بترسید و دل از ایماں بکند

    اس نے اس سے بچے کو چھینا اور آگ میں ڈال دیا

    عورت ڈری اور دل کو ایمان سے ہٹایا

    خواست تا او سجده آرد پیش بت

    بانگ زد آں طفل کہ انی لم امت‌‌

    اس نے چاہا کہ وہ بت کے سامنے سجدہ کرے

    بچہ چیخا کہ میں مرا نہیں

    اندر آ اے مادر اینجا من خوشم

    گرچہ در صورت میان آتشم‌‌

    اماں! اندر آجا میں اس جگہ اچھا ہوں

    اگرچہ بظاہر آگ میں ہوں

    چشم بندست آتش از بہر حجیب

    رحمتست ایں سر بر آورده ز جیب

    آگ نظر بندی کے لیے ایک پردہ ہوں

    (ورنہ) یہ ایک رحمت ہے جو رونما ہے

    اندر آ مادر ببیں برہان حق

    تا بہ بینی عشرت خاصان سعد

    ماں ! اندر آ سچائی کی دلیل دیکھ

    تاکہ تو خاصانِ خدا کے عیش کو دیکھے

    اندر آ و آب بیں آتش مثال

    از جہانے کاتشست آبش مثال

    اندر آ اور آگ کی صورت کا، پانی دیکھ

    اس دنیا سے جس کا پانی (بھی) آگ جیسا ہے

    اندر آ اسرار ابراہیم بہ بیں

    کو در آتش یافت سرو و یاسمیں

    اندر آ حضرت ابراہیم کے راز دیکھ

    جس نے آگ میں گلاب اور چنبیلی کے پھول پائے

    مرگ می دیدم گہ زادن ز تو

    سخت خوفم بود افتادن ز تو

    تجھ سے پیدا ہونے کے وقت مجھے موت نظر آرہی تھی

    تجھ میں سے نکل پڑنے کا مجھے بہت ڈر تھا

    چوں بزادم رستم از زندان تنگ

    در جہانے خوش ہواۓ خوب رنگ

    جب میں پیدا ہوا تنگ قید خانہ سے چھوٹا

    اچھے مقام اور اچھے رنگ کی دنیا میں (آگیا)

    من جہاں را چوں رحم دیدم کنوں

    چوں دریں آتش بدیدم ایں سکوں

    اب میں ! اس دنیا کو رحم کی طرح سمجھتا ہوں

    جب میں نے اس آگ میں یہ سکون دیکھا

    اندریں آتش بدیدم عالمے

    ذرہ ذرہ اندر او عیسیٰ دمے

    میں نے اس آگ میں وہ دنیا دیکھی

    جس میں ایک ایک ذرہ عیسٰی کے دم کی طرح ہے

    نک جہان نیست شکلے ہست ذات

    واں جہان ہست شکلے بے ثبات

    اب ایک دنیا ہے بظاہر معدوم ، دراصل موجود

    اور وہ دنیا کی موجودہ شکل ناپائیدار ہے

    اندر آ مادر بحق مادری

    بیں کہ ایں آذر ندارد آذری

    ماں! اندر آ مادری حقوق کا واسطہ

    دیکھ یہ آگ، آگ کی تاثیر نہیں رکھتی ہے

    اندر آ مادر کہ اقبال آمدست

    اندر آ مادر مدہ دولت ز دست

    ماں! اندر آ کہ خوش قسمتی آگئی ہے

    ماں! اندر آ دولت کو ہاتھ سے نہ دے

    قدرت آں سگ بدیدی اندر آ

    تا بہ بینی قدرت لطف خدا

    تونے اس کتنے کی طاقت دیکھ لی ، اندر آ

    تاکہ تواللہ کی قدرت اور مہربانی دیکھ لے

    من ز رحمت می کشانم پائے تو

    کز طرب خود نیستم پرواۓ تو

    میں محبت کی وجہ سے تیرا پیر کھول رہا ہوں

    (ورنہ) خوشی کی وجہ سے مجھے تیری پروا نہیں ہے

    اندر آ و دیگراں را ہم بخواں

    کاندر آتش شاہ بنہادست خواں

    اندر آجا ، اور دوسروں کو بھی بلا لے

    کیونکہ آگ میں شاہ نے دستر خوان بچھا دیا ہے

    اندر آئید اے مسلماناں ہمہ

    غیر ایں عذبے عذابست آں ہمہ

    اے لوگو! سب کے سب پروانوں کی طرح اندر آ جاؤ

    اس آگ میں جس میں سینکڑوں بہاریں ہیں

    اندر آئید اے ہمہ پروانہ وار

    اندریں بہرہ کہ دارد صد بہار

    اے مسلمانوں ! سب اندر چلے آؤ

    دین کے میٹھے پانی کے علاوہ سب عذاب ہے

    بانگ می زد درمیان آں گروہ

    پر ہمی شد جان خلقاں از شکوہ

    اس جماعت میں وہ پکار رہی تھی

    لوگوں کی جان عظمت سے پر ہو رہی تھی

    خلق خود را باد از آں بے خویشتن

    می فکندند اندر آتش مرد و زن

    اس کے بعد بے خود ہو کر لوگ اپنے آپ کو

    مرد و عورت، آگ میں ڈال رہے تھے

    بے موکل بے کشش از عشق دوست

    زانکہ شیریں کردن ہر تلخ ازوست

    دوست کے عشق کی وجہ سے کسی کے بلانے اور کشش کے بغیر

    اس لئے کہ ہر تلخ کا شیریں کردینا اس کی ہی جانب سے ہے

    تا چناں شد کآں عواناں خلق را

    منع می کردند کہ آتش در میا

    یہاں تک ہوا کہ وہ سپاہی لوگوں کو

    منع کرتے تھے کہ آگ میں نہ آؤ

    آں یہودی شد سیہ رو و خجل

    شد پشیماں زیں سبب بیمار دل

    وہ یہودی سیہ رو اور شرمندہ ہوگیا

    دل کا بیمار، اس وجہ سے پشیمان ہو گیا

    کاندر ایماں خلق عاشق تر شدند

    در فناۓ جسم صادق‌‌ تر شدند

    کہ لوگ آگ میں گرنے کے اور زیادہ عاشق ہو گئے

    جسم کو فنا کرنے میں اور سچے ہو گئے

    مکر شیطاں ہم در او پیچید شکر

    دیو ہم خود را سیہ رو دید شکر

    شکر ہے، شیطان کا مکر اسی تو چمٹ گیا

    شکر ہے ، شیطان نے اپنے آپ کو بھی کالا منہ دیکھا

    آں چہ می مالید در روۓ کساں

    جمع شد در چہرۂ آں نا کساں

    (وہ سیاہی) جو وہ لوگوں کے منہ پر ملتا تھا

    ان کمینوں کے چہروں پر اکھٹی ہو گئی

    آنکہ می درید جامۂ خلق چست

    شد دریدہ آن او ایشاں درست

    جو تیزی سے لوگوں کی جامہ دری کرتا تھا

    اس کا جامہ چاک ہوگیا ، ان کا درست ہو گیا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے