از گریباں چند تارے ماندہ است
از گریباں چند تارے ماندہ است
اے جنوں دستے کہ کارے ماندہ است
1. اے عشق کے ہاتھوں وارفتگی اور شوریدہ سری کا یہ حال ہے کہ گریبان کے چند تار ہی باقی رہ گئے ہیں، اے جنون و وارفتگی مدد کر کیونکہ ابھی کام باقی رہ گیا ہے (یعنی اس محبوب کو آرام کرنے کا کام ابھی باقی رہ گیا ہے، اس لئے اے جنون اپنی شوریدہ سری کو اور بڑھا تاکہ کام انجام کو پہنچ جائے)۔
تند مگذر اے صبا در کوئے او
برد از ما غبارے ماندہ است
2. کوئے محبوب میں اے صبا! تیز نہ چل ، کیونکہ در محبوب پر ہمارے وجود کا غبار پڑا ہوا ہے، وہ اڑ کر یہاں جدا ہوجائے گا (محبوب سے وفاداری اور تعلق کا یہاں اظہار ہے کہ عاشق اپنے معشوق کے در سے خاک ہوجانے کے بعد بھی جدا ہونا پسند نہیں کرتا)۔
بر در و دیوار او از خون من
سالہا نقش و نگارے ماندہ است
3. محبوب ومطلوب کے در و دیوار پر میرے خون سے بنے ہوئے نقش و نگار ابھی تک موجود ہیں (اس شعر کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ عشق میں ہماری قربانیوں اور ایثار کے اثرات ابھی تک مٹے نہیں ہیں)۔
رنگ و بوئے کرد پیدا آشناؔ
مدتے با گلعذارے ماندہ است
4. آشنا نے اپنے اندر رنگ وبو پیدا کرلیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی پھول سے چہرے والے معشوق کی صحبت اٹھائی ہے (یعنی پھولوں جیسی رنگینی اور خوشبو آشنا میں پیدا ہوگئی اور جمال ہم نشیں در من اثر کرد کے مصداق اس گلاب جیسے رخ والے محبوب کی ہم نشینی نے گلاب کی طرح معطر کردیا)۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 165)
- Author : شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.