آستیں بر رخ کشیدی ہم چو مکّار آمدی
آستیں بر رخ کشیدی ہم چو مکّار آمدی
باخودی خود در تماشا سوئے بازار آمدی
1. (اے محبوب ازل) تونے اپنے چہرے پر آستین کا پردہ) ڈالا اور حیلہ گروں کی طرح ظاہر ہوا۔ اپنی ذات و اعتبار کے ساتھ جلوہ دکھانے کے لئے خود بازار کی طرف آیا۔
خویشتن راجلوہ کردی اندریں آئینہ ہا
آئینہ اسمے نہادی خود باظہارآمدی
2. کائنات کے آئینوں کے اندر خود جلوہ افروز ہوا، آئینہ رکھ دیا جبکہ خود اظہار کو آیا (یعنی کائنات کو اپنے مظاہرِ قدرت کا ذریعہ بنایا، عکس جمال کے ظہور کے لئے آئینہ نام دیا اور حسن وجمال کے ساتھ جلوہ فگن ہوا)۔
در بہاراں گل شدی در صحن گلزار آمدی
بعد ازاں بلبل شدی بانالۂ زارآمدی
3. موسم بہار میں پھولوں کا روپ دھار کر خود چمن کی زینت ہوا اور پھر بلبل بن کر خود اپنے حسن کا عاشق ہو کر نالۂ عاشقانہ بلند کیا۔
شور منصوراز کجا و دارمنصور از کجا
خود زدی بانگ اناالحق خود سردار آمدی
4. منصور کا دعویٰ کیا اور سولی کیا؟ خود ہی نعرۂ انا الحق بلند کیا اور خود زینت دار ہوا۔
گفت قدوسؔ فقیرے در فنا و در بقا
خود ز خود آزاد بودی خود گرفتار آمدی
5. فنا اور بقا کے مرحلے کے ایک فقیر قدوس نے کہا کہ (اے محبوب لم یزل) تو خود اپنے آپ آزاد تھا اور خود اپنا گرفتار ہوا۔ (یہ اشعار وحدۃ الوجود کے ہیں)۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 303)
- Author :شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.