عرض ہستی زنگ بر آئینۂ دل می شود
عرض ہستی زنگ بر آئینۂ دل می شود
تا نفس خط می کشد ایں صفحہ باطل می شود
زندہ رہنے کی کوششیں دل کے آئینے پر زنگ چڑھا دیتی ہیں، جب تک اسے صاف کیا جائے دل کا کاغذ بےکار ہو جاتا ہے۔
آب می گردد بہ چندیں رنگ حسرت ہائے دل
تا کف خونی نثار تیغ قاتل می شود
جب تک خون آلود ہاتھ قاتل کی تلوار پر نچھاور نہ ہو، دل کی حسرتیں کئی رنگوں میں پانی کی طرح بہہ جاتی ہیں۔
در پناہ دل تواں رست از دو عالم پیچ و تاب
بر گہر موجے کہ خود را بست ساحل می شود
دل اور جذبات کے سہارے زندگی کی اُلجھنوں سے گزرا جا سکتا ہے اور ہر مشکل میں سکون پایا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ انسان محفوظ کناروں تک پہنچ جاتا ہے۔
بسکہ ما حسرت نصیباں وارث بیتابیئیم
می رسد بہ ما تپیدن ہر کہ بسمل می شود
حسرت زدہ افراد کو ورثے میں صرف بےتابی ہی بےتابی ملتی ہے، جو بھی جلتا ہوا میرے پاس آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے۔
زندگانی سخت دشوار است با اسباب ہوش
بے شعوری گر نہ باشد کار مشکل می شود
ہوش و حواس کے سامان کے ساتھ یہ زندگی بہت دشوار ہے، اگر بےشعوری نہ ہو تو کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
اوج عزت در کمین انتظار عجز ماست
از شکستن دست در گردن حمایل می شود
عزت اور کرامت کی بلندی، عجز کی کمین گاہ کے انتظار میں ہے، ہاتھ ٹوٹ جانے پر وہی ہاتھ گردن میں لٹکا دیا جاتا ہے۔
بر مراد یک جہاں دل تا بہ کے گردد فلک
گر دو عالم جمع سازد کار یک دل می شود
ایک دنیا کی طلب میں دل کب تک پریشان رہے، اگر دونوں جہان ساتھ ہو جائیں تو کام آسان ہو جائے۔
در رہ عشقت کہ پایانی ندارد جادہ اش
ہر کہ وا ماند برائے خویش منزل می شود
تمہارے عشق کی راہ کا کوئی انجام نہیں، جو تھک ہار کر بیٹھ جائے وہ خود ہی اپنی منزل بن جاتا ہے۔
گر بہ سوزد آہ مجنوں بر رخ لیلیٰ نقاب
شرم می بالد بہ خود چنداں کہ محمل می شود
اگر مجنوں کی آہ لیلیٰ کے چہرے کا نقاب جلا دے، تو پشیمانی بڑھتے بڑھتے خود ہی محمل بن جاتی ہے۔
انفعال ہستیٔ آفاق را آئینہ ام
ہر کہ رو تابد زخود با من مقابل می شود
ہستی آفاق کی شرمندگی میرے لۓ ایک آئینے کی مانند ہے، جو بھی اس میں جھانکتا ہے میرا ہی عکس دیکھتا ہے۔
کس اسیر انقلاب نار سائی ہا مباد
دست قدرت چوں تہی شد پائے در گل می شود
کہیں نہ پہنچنے کے درد کے قیدی نہ بنو, جب ہاتھ خالی ہو جاتے ہیں تو قدم خود بخود مٹی میں چلے جاتے ہیں۔
ایں دبستان من و ما انتخابش خامی است
لب بدنداں گر فشاری نقطہ حاصل می شود
یہ “میں اور ہم” کا مکتب اختیار کرنا ناپختگی ہے،
اگر لب کو دانتوں میں دبا لیا جائے تو وہ نقطہ بن جاتا ہے۔
نشئہ آسودگی در ساغر یاسست و بس
راحت جاوید دارد ہر کہ بیدلؔ می شود
آسودگی کا نشہ صرف مایوسی کے پیالے میں ہوتا ہے، ہمیشہ کی راحت تو اسے ملتی ہے جو بےدل ہو جاتا ہے۔
- کتاب : کلیات بیدلؔ (Pg. 595)
- Author : میرزا عبدالقادر بیدلؔ
- مطبع : پوہنی مطبع، کابل (1962)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.