بیا تا گل بر افشانیم و می در ساغر اندازیم
بیا تا گل بر افشانیم و می در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشکافیم و طرحی نو در اندازیم
آ، تا کہ پھول برسائیں اور ساغر میں شراب ڈالیں
آسمان کی چھت کو پھاڑ ڈالیں اور نئی بنیاد قائم کریں
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقان ریزد
من و ساقی بہ ہم تازیم و بنیادش بر اندازیم
اگر غم لشکر کشی کرے، تا کہ عاشقوں کی خون ریزی کرے
میں اور ساقی متّفق ہو جائیں، اور اس کی جڑ اکھاڑ پھینکیں
شراب ارغوانی را گلاب اندر قدح ریزیم
نسیم عطر گردان را شکر در مجمر اندازیم
سُرخ شراب کے پیالے میں، گلاب ملائیں
خوشبو پھیلانے والی نسیم کی انگیٹھی میں، شکر ڈالیں
چو در دست است رودی خوش، بزن مطرب سرودی خوش
کہ دست افشان غزل خوانیم و پاکوبان سر اندازیم
جبکہ تیرے ہاتھ میں اچھّا باجا ہے، اے مُطرب اچھا گانا گا
تاکہ رقص کرتے ہوئے ہم غزل پڑھیں اور ناچتے ہوئے سر دھنیں
صبا خاک وجود ما بدان عالی جناب انداز
بود کان شاه خوبان را نظر بر منظر اندازیم
اے صبا، ہمارے وجود کی خاک کو اِس بلند دربار میں ڈال دے
ہو سکتا ہے کہ ہم اس حسینوں کے بادشاہ کے رخ کو دیکھ لیں
یکے از عقل می لافد یکی طامات می بافد
بیا کایں داوری ہا را بہ پیشِ داور اندازیم
ایک عقل کی ڈینگیں مارتا ہے، دوسرا کرامات کی بکواس کرتا ہے
آ، ہم ان جھگڑوں کو خدا کے سامنے پیش کر دیں
بہشت عدن اگر خواہی بیا با ما بہ میخانہ
کہ از پائے خمت روزی بہ حوضِ کوثر اندازیم
اگر تو بہشتِ عدن چاہتا ہے، ہمارے ساتھ میخانہ میں چل
کہ تجھے پائے خم سے سیدھا، حوض کوثر میں ڈال دیں
سخن دانی و خوش خوانی نمی ورزند در شیراز
بیا حافظؔ کہ تا خود را بہ ملکی دیگر اندازیم
سخندانی، اور خوش الحانی شیراز میں پسند نہیں کرتےہیں
آ، حافظ تا کہ ہم اپنے آپ کو، دوسرے ملک میں پھینک دیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.