Sufinama

مست گشتم از دو چشم ساقیٔ پیمانہ نوش

شاہ نیاز احمد بریلوی

مست گشتم از دو چشم ساقیٔ پیمانہ نوش

شاہ نیاز احمد بریلوی

MORE BYشاہ نیاز احمد بریلوی

    مست گشتم از دو چشم ساقیٔ پیمانہ نوش

    الفراق اے ننگ و ناموس الوداع اے عقل و ہوش

    میں شراب پینے والے ساقی کی دو آنکھوں سے مست ہوگیا

    اے عزت و ناموس دور ہوا، اے عقل و ہوش رخصت ہوا

    یارب ایں چشم منست یا جادوست کز کیفیتش

    ہمچو دریائے محیط ایں قطرہ ام آمد بہ جوش

    یا الہی یہ مست آنکھیں ہیں یا کوئی جادو

    دریا کی طرح یہ آنسوؤں کی بوندیں جوش مار رہی ہیں

    شد تنم ہم رنگ با جاں جاں بہ تن ہم رنگ شد

    می رسد ہر جا کہ خواہد جاں بہ تن خانہ بدوش

    میرا جسم روح کا ہم رنگ ہوگیا اور جان جسم کے موافق ہوگئی

    جہاں روح چاہتی ہے جسم کو خانہ بدوش لے جاتی ہے

    گفتمش اے جان من ہم جان و ہم تن خود توئی

    گفت فی الواقع دلی در سر ایں اسرار کوش

    میں نے اس سے کہا کہ جان بھی اور جسم بھی (اے محبوب) خود تو ہے

    اس نے کہا ایک دل اس راز کی حفاظت کے لئے حقیقت میں تلاش کر

    نیست اندر اختیارم ضبط حالت چوں کنم

    می برآید از درونم می خروش و می خروش

    میرے بس میں نہیں ہے، میں اپنی کیفیت کو ضبط کیسے کروں

    میرے اندر سے آواز آرہی ہے کہ چینخ چینخ

    دی بودم من شیخ دیں و سبحہ خواں مسجد نشیں

    ہستم اکنوں بت پرستم و کافر زنار پوش

    کل میں شیخ الاسلام تھا اور مسجد میں بیٹھا تسبیح پڑھتا تھا

    اب میں زنار باندھے ہوئے کافر بت پرست ہوں

    زہد و تقویٰ در فگندم زیر پائے آں صنم

    مذہبم عشقست و رندی مشربم جوش و خروش

    اس محبوب کے قدموں میں میں نے زہد و تقویٰ کو نثار کردیا

    (اب) میرا مذہب تیرا عشق اور شراب خوری اور مشرب جوش و خروش ہے

    زاہدا بہ شنو خدا را ایں چہ می گویم ترا

    زہد بے معنی گذارد جام عشق از من بہ نوش

    اے زاہد ! خدا کے واسطے وہ سن جو میں تجھے سے کہہ رہا ہوں

    (اپنے) بیکار کو ترک کردے اور عشق کا جام میرے ہاتھوں پی

    خدمت پیر مغاں بر خود گرفتارم فرض عین

    کمترین از بندگانش بندہ ام حلقہ بگوش

    پیر مغاں کی خدمت کو میں نے فرض عین بنالیا ہے

    اس کا حلقہ بگوش اس کے غلاموں میں سے میں حقیر غلام ہوں

    بر در مے خانہ بہ نشستم بہ صد عجز و نیاز

    گشت ام از بہر یک دو جام مے طاعت فروش

    میں نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ میخانے کے دروازے پر بیٹھا ہوں

    ایک دو شراب کے پیالے کے لئے میں عبادت فروش بن گیا ہوں

    عالمے پر شورشست از غلغل و شورت نیازؔ

    یک دمے یار من از ہا و ہو بس کن خموش

    اے نیازؔ تیرے شور و غوغا سے ایک عالم دیوانہ ہے

    اس لئے اے میرے یار کچھ دیر کے لئے اپنے ہاو ہو کو خاموش کر

    مأخذ :
    • کتاب : دیوان نیاز بے نیاز (Pg. 69)
    • اشاعت : First

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے