شرمندہ ہوں گناہ سے اپنے میں اس قدر
کیا چشم پر گنہ کو تیری دو بدو کریں
یہی خیر ہے کہیں شر نہ ہو کوئی بے گناہ ادھر نہ ہو
وہ چلے ہیں کرتے ہوئے نظر کبھی اس طرف کبھی اس طرف
فرشتے مرے بانٹ لیں کچھ گناہ
کمی ہو گر انباری دوش میں
گناہ کرتا ہے برملا تو کسی سے کرتا نہیں حیا تو
خدا کو کیا منہ دکھائیگا تو ذرا اے بے حیا حیا کر
بے پیے بھی صبح محشر ہم کو لغزش ہے بہت
قبر سے کیوں کر اٹھیں بار گناہ کیوں کر اٹھے
معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کئے جا رہا ہوں میں
گرداب گناہ میں پھنسے ہیں
دامان دل و نگاہ تر ہے
جانتا ہوں میں کہ مجھ سے ہو گیا ہے کچھ گناہ
دل ربا یا بے دلوں سے دل تمہارا پھر گیا
جو مانگنا ہو خدا سے مانگو اسی سے بخشش کی التجا ہو
گناہ ڈھل کر ہو پانی پانی سنبھل کے چلیے قدم قدم پر
کرو رندو گناہ مے پرستی
کہ ساقی ہے عطا پاش و خطا پوش
دل کو بٹھائے دیتی ہے تکلیف راہ کی
کیوں کر کوئی اٹھائے یہ گٹھری گناہ کی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere